1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنسی صلاحیت سے محروم کرنا مجرموں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے؟

16 جولائی 2020

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب مجرموں کو جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کی سزا کے قانون کی منظوری کے نتیجے میں مجرموں کے حقوق کے حوالے سے ایک نئی بحث شروع ہو گئی۔

https://p.dw.com/p/3fOuZ
BG: Honduraner im überfüllten Gefängnis leiden unter psychischer Belastung
تصویر: Reuters/A. Latif

رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کو جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کی سخت سزا کا قانون منظور کیا تھا۔ اس بل میں جرم ثابت ہونے پر دیگر انتہائی سخت سزائیں منظور کی گئیں، جس میں بچوں سے زیادتی کے مرتکب مجرموں کو سزائے موت اور عمر قید کی سزا بھی شامل ہے۔

پیڈوفائلز جرم پر قابو پانے کے لیے نئے قانون میں سخت سزاؤں کی منظوری پر انسانی حقوق کے کارکنان اور سول سوسائٹی نے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سزائیں انسانی حقوق کی بنیادی اقدار کو مجروح کرتی ہیں۔

’مضحکہ خیز اور وحشیانہ سزا‘

انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیم انصار برنی ٹرسٹ کے سربراہ انصار برنی نے اس قانون میں شامل سزا کو مضحکہ خیز، وحشیانہ اور ناانصافی کے مترادف قرار دیا ہے۔ انصار برنی کے بقول، ’’سب سے بری بات یہ ہے کہ اس کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں انصاف کا نظام کافی کمزور ہے اور اس میں ہیرا پھیری ممکن ہے۔‘‘

BG: Honduraner im überfüllten Gefängnis leiden unter psychischer Belastung
تصویر: Reuters/A. Latif

دوسری جانب وکلاء کے درمیان اس معاملے پر منقسم رائے پائی جاتی ہے۔ اسلام آباد میں مقیم وکیل رضوان خان کے مطابق غیر انسانی قانون کے ساتھ ایک گھناؤنے جرم کی سخت سزا دینے سے فائدہ ہونے کا امکان کم ہے۔

یہ بھی پڑھیے: بچوں کو ديکھ بھال کے ليے بچے بازوں کے حوالے کيا جاتا رہا

اس قانون کے بارے میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے وکیل کرم داد خان نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ایک خوفناک جرم ہے اور صرف ایک مثالی سزا کے ذریعے ہی اس بدفعلی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

سخت سزاؤں کی حمایت 

اس بل کے شریک مصنف اور وزیر قانون احمد رضا قادری کا کہنا ہے کہ عدالتیں ہر جرم کی انفرادی نوعیت اور حالات کو بروئے کار لاتے ہوئے سزا کا فیصلہ کریں گی۔ 
انہوں نے اس قانون کا دفاع کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس سخت قانون کے ذریعے ایک واضح پیغام جاتا ہے کہ پیڈوفائلز کو کسی بھی قسم کی ہمدردی یا پھر دوسرا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا۔ ان کے بقول، ’’یہ ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن ہمارے پاس بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی روکنے کا اور کوئی آپشن موجود نہیں تھا۔‘‘

Pakistan Skandal um Kindesmissbrauch
تصویر: Reuters/M. Raza

سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی اس بل کی حمایت کی گئی۔ کشمیر کے سابق وزیر اعظم اور مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق کا کہنا تھا کہ اگر اس قانون کا غلط استعمال ہوا تو پھر ترمیم کی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیے: معصوم بچوں کو کیا پتا؟ سوچنا تو معاشرے کو ہے!

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’ساحل‘ کی جانب سے بچوں کے خلاف جرائم کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے سن 2019 کے دوران پاکستان میں روزانہ آٹھ سے زائد بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 1524 لڑکیاں اور 1322 لڑکوں کو جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔

ع آ / ع ح (ڈی پی اے)

پاکستان: مدارس میں بچوں کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کے واقعات

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں