1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق رہنما غلام اعظم کو 90 برس قید

عاطف بلوچ15 جولائی 2013

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے سابق رہنما غلام اعظم کو ایک خصوصی عدالت نے 90 برس قید کی سزا سنائی ہے۔ ان کے خلاف 1971ء میں آزادی کی جدوجہد کے دوران جنگی جرائم کے الزامات تھے۔

https://p.dw.com/p/197bU
تصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images

رواں برس جنوری کے بعد سے بنگلہ دیشی حکومت کے بنائے گئے ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل‘ کی طرف سے جنگی جرائم کے الزامات کے تحت یہ پانچویں سزا سنائی گئی ہے۔ قبل ازیں جماعت اسلامی کے تین رہنماؤں کو سزائے موت اور ایک کو عمر قید کی سزا سنا چکی ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے حامیوں کی طرف سے مظاہرے بھی جاری ہیں۔ عدالت کی طرف سے حتمی فیصلہ سنائے جانے سے قبل ہی اتوار کے روز ڈھاکا میں جماعت اسلامی کے حامیوں نے مختلف مظاہروں کا اہتمام کیا۔

Bangladesch Unruhen Partei BNP Proteste gegen Polizeigewalt
مزید مظاہروں کے پیش نظر سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہےتصویر: Reuters

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ اس دوران یہ مظاہرے پر تشدد رنگ اختیار کر گئے اور مظاہرین اور پولیس کے مابین تصادم بھی ہوا۔ پولیس کے مطابق جماعت اسلامی کے حامی چالیس افراد نے ایک پولیس وین پر حملہ کیا اور دیسی ساختہ بم پھینکے۔ نائب پولیس کمشنر سیف الرحمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس دوران پتھراؤ کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار شدید زخمی بھی ہو گیا۔

بنگلہ دیش میں حکومت کی طرف سے قائم کردہ جنگی جرائم کی متنازعہ خصوصی عدالت کی طرف سے ماضی میں سنائے جانے والے فیصلوں کے بعد شدید نوعیت کے ہنگاموں کا آغاز ہو گیا تھا۔ اسلام پسند مظاہرین کے بقول 90 سالہ غلام اعظم پر عائد الزامات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔ بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران جماعت اسلامی کے سربراہ غلام اعظم ہی تھے۔ حکومت کے بقول اس دوران لاکھوں افراد ہلاک کر دیے گئے تھے۔

بنگلہ دیش کی سیکولر حکومت کی طرف سے 2010ء میں بین الاقوامی کرائمز ٹریبیونل قائم کیا گیا تھا۔ یہ خصوصی ٹریبیونل پہلے بھی جماعت اسلامی کے چار رہنماؤں کے خلاف فیصلے سنا چکا ہے، جن میں سے تین کو سزائے موت جبکہ ایک کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ پراسیکیوٹر سلطان محمود نے فرانسیسی نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ آج پیر کو یہ ٹریبیونل غلام اعظم کے خلاف مقدمے میں حتمی فیصلہ سنا دے گا۔

بنگلہ دیش میں ریاستی دفتر استغاثہ نے غلام اعظم کا موازنہ نازی جرمنی کے اڈولف ہٹلر سے کرتے ہوئے ان کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ ان کے بقول ملزم نے جنگی جرائم کے مرتکب دیگر افراد کی رہنمائی کی تھی۔

ٹریبونل پر اعتراضات

Bangladesch Blasphemie Gesetz Ausschreitungen Dhaka
اتوار کو مظاہرے پر تشدد رنگ اختیار کر گئےتصویر: Reuters

بنگلہ دیش کی سب سے بڑی مذہبی پارٹی جماعت اسلامی اور اپوزیشن کے اہم رہنماؤں نے پیر کے دن ملک گیر ہڑتال کی کال دے رکھی تھی۔ اپوزیشن کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر سرگرم انسانی حقوق کے متعدد ادارے بھی بنگلہ دیش کے اس جنگی ٹریبیونل کی ’منصفانہ اور غیر جانبدارانہ‘ حیثیت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس عدالت میں جن ملزمان کے خلاف مقدمے چلائے جا رہے ہیں، ان کا تعلق یا تو جماعت اسلامی سے ہے یا پھر اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بی این پی سے۔

غلام اعظم اس وقت سیاسی طور پر سرگرم نہیں ہیں لیکن وہ بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے روحانی رہنما تصور کیے جاتے ہیں۔ ان پر جرائم کی منصوبہ بندی، سازش، جرائم پر اکسانے، قتل اور اذیت رسانی جیسے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ سلطان محمود کے بقول اعظم پر مجموعی طور پر 61 الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ملزم کے وکیل تاج الاسلام کے بقول استغاثہ ان کے مؤکل کے خلاف کوئی بھی الزام ثابت کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔

اس متنازعہ ٹریبیونل کی طرف سے ماضی میں سنائی جانے والی سزاؤں کے خلاف عوامی سطح پر شروع ہونے والے پر تشدد مظاہروں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 150 بتائی جاتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق آج کے دن بالخصوص ڈھاکا میں سکیورٹی کا سخت انتظام کیا گیا ہے۔ اس خصوصی عدالت میں مجموعی طور پر بارہ ملزمان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، جن میں سے دو کا تعلق بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی BNP سے ہے جبکہ باقی کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے یا رہ چکا ہے۔ ان بارہ میں سے چار ملزمان پر عائد الزامات درست ثابت ہو جانے پر انہیں سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید