1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

نوآبادیاتی جرائم کے موضوع پر بننے والی پہلی جرمن فلم

2 اپریل 2023

’میژرز آف مین‘ جرمنی کے نوآبادیاتی جرائم کے موضوع پر بننے والی پہلی جرمن فیچر فلم ہے۔ اس میں نمیبیا کے مقامی قبائل کی جانب سے جرمن نوآبادیاتی حکومت کے خلاف بغاوت اور اس کے کچلے جانے سے متعلق پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4PYX9
Berlinale 2023/Der vermessene Mensch (a place in the sun)
تصویر: Julia Terjung/Studiocanal GmbH

آج سے تقریباً 120 سال قبل جنوب مغربی افریقہ، جسے اب نمیبیا کہا جاتا ہے، جرمن نوآبادی تھا۔ "Der vermessene Mensch" یعنی (Measures of Men)  نامی اس فلم میں نمیبیا کے لوگوں پر ہونے والے جرمن نوآبادیاتی مظالم کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار لارس کراؤمے پہلے بھی جرمن تاریخ کے دیگر متنازعہ موضوعات کو اپنی فلموں کا عنوان بنا چکے ہیں۔

کہانی کا پسِ منظر

اس فلم کے ہدایت کار لارس کراؤمے نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کے دوران بتایا کہ جب جنوب مغربی افریقہ یعنی کہ نمیبیا میں ہیریرو اور ناما قبائل کے لوگ جرمن نوآبادیاتی حکومت کے خلاف کھڑے ہوئے تو جرمن فوجی کمانڈر جنرل لوتھر وان تروتھا نے ان کی بغاوت کو انتہائی بے رحمی سے کچل دیا تھا۔ کراؤمے کا کہنا تھا کہ جنرل تروتھا کے اس اقدام کو تاریخ کی کتابوں میں "بیسویں صدی کی پہلی نسل کشی" کہا گیا ہے۔

تاریخی حقائق پر مبنی افسانوی کہانی

کراؤمے کےمطابق ان کی فلم افسانوی مگر تاریخی حقائق پر مبنی ہے۔ جس میں الیگزانڈر ہوفمان نامی ایک افسانوی کردار بطور انتھالوجسٹ اس جرمن نوآبادی کے ایک تحقیقی دورے پر نکلتا ہے اور نسل کے موضوع پر کی جانے والی اپنی نام نہاد "تحقیقِ‘‘ کے لیے مردہ انسانوں کی کھوپڑیاں جمع کرنا شروع کرتا ہے۔

Filmszene | Der Vermessene Mensch
’میژرز آف مین‘ جرمنی کے نوآبادیاتی جرائم کے موضوع پر بننے والی پہلی جرمن فیچر فلم ہےتصویر: Julia Terjung

اس تجربے کے دوران وہ جرمن پروٹیکشن فورس کے ہاتھوں نمیبیا کے قبائل کی نسل کشی کا مشاہدہ بھی کرتا ہے۔ یہ حفاظتی دستے سن 1904 اور سن 1908 کے درمیان نمیبیا کے قبائل ہیریرو اور ناما سے جرمن سلطنت کو محفوظ رکھنے کے لیے تشکیل دیے گئے تھے۔ الیگزانڈر ہوفمان اس کے باوجود نسلی تفریق کی بنیادوں پر کیے جانے والے ان مظالم کو نہ صرف جائز سمجھتا ہے بلکہ اس کی تحقیق پر بھی اس کے اثرات نمایاں ہو جاتے ہیں۔

فلم کا پہلا سین

کراؤمے کے مطابق فلم کا پہلا سین دل دہلا دینے والا ایک منظر ہے، جس میں ایک جرمن سائنسدان فریڈرش برلن کی ولہیلم یونیورسٹی، جو اب ہمبولڈ یونیورسٹی کہلاتی ہے، کے ایک لیکچر ہال میں جرمن اور افریقی نسل کے انسانوں کی کھوپڑیوں کی پیمائش کرتے دکھایا گیا ہے۔ ان پیمائشوں کے ذریعے یہ جرمن سائنسدان ایک سوڈو سائنسی، ارتقائی نسلی نظریے کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رے ہیں کہ ایک جرمن کی کھوپڑی قدیمی افریقی باشندے  کی کھوپڑی سے بڑی ہے۔ ان کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ جرمن افریقی باشندوں کے مقابلے میں "زیادہ ذہین" ہیں۔

فلم کے مرکزی کردار

محقق الیگزینڈر ہوفمان کا کردار لیونارڈ شیچر نے نبھایا ہے۔ ابتدا میں ہوفمان نسلی برتری کے رائج نظریہ کی تردید کرتے ہوئے یہ 'ریس تھیوری' پیش کرنا چاہتے ہیں کہ تمام انسان ایک ہی "نسل" یعنی ہومو سیپینز (Homo Sapiens ) سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہوفمان کو اپنے اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے مواد اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ سب سے زیادہ انحصار ایک ہیریرو خاتون کی باتوں پر کرتےہیں۔ کیزیا کمبازیمبی نامی یہ خاتون فلم کا دوسرا مرکزی کردار ہے، جس کو نمیبیا کی اداکارہ گرلی چارلین جازما نے نبھایا ہے۔

ہوفمان کو اس عورت سے محبت بھی ہے مگر وہ اسے اپنی اس تحقیق کے لیے ایک مہرے کی طرح استعمال کرتا ہے۔

Filmszene | Der vermessene Mensch
مغربی افریقہ یعنی کہ نمیبیا میں ہیریرو اور ناما قبائل کے لوگ جرمن نوآبادیاتی حکومت کے خلاف کھڑے ہوئے تو جرمن فوجی کمانڈر جنرل لوتھر وان تروتھا نے ان کی بغاوت کو انتہائی بے رحمی سے کچل دیا تھاتصویر: Willem Vrey

نوآبادیاتی دور کی سائنسی تحقیقات اور اخلاقی تنزلی

 کراؤمے کے مطابق ابتدا میں محقق کو اپنے مقالے کے لیے فریڈرش ولہیلم یونیورسٹی میں موقع نہیں دیا جاتا اور پھر برسوں بعد، جب جرمن جنوبی مغربی افریقہ میں ہیریرو کی بغاوت سر اٹھاتی ہے تو اسے اپنا کام کرنے کا دوسرا موقع ملتا ہے۔

تحقیق کی غرض سے اب وہ جرمن امپیریل آرمی کے ساتھ نمیبیا کے دورے پر جاتا ہے۔ نمیبیا میں قیام کے دوران وہ برلن ایتھنولوجیکل میوزیم کے لیے سیاسی و عسکری تنازعے میں مرنے والے مقامی افراد کی ہڈیوں کے نمونے اور کھوپڑیاں اکٹھی کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اور جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے ویسے ویسے اسے ہیریرو مخالف بنتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ بنیادی طور پر اس فلم میں اس نوجوان انتھالوجسٹ کی اخلاقی تنزلی دکھائی گئی ہے۔ افریقہ میں نوآبادیاتی سفاکیت کے مشاہدے کے دوران وہ خود بھی اس تباہ کن مشینری کا حصہ بن جاتا ہے۔ وہ اپنی تحقیقی اغراض کے لیے مقامی مقبروں کی لوٹ مار اور نوادرات کی چوری شروع کردیتا ہے۔

نقادوں کا نقطہء نظر

کچھ نقادوں نے کراؤمے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فلم کو متعدد زاویوں کی عکاس ہونا چاہیے تھا اور اس میں ہیریرو اور ناما قبائل کے موقف کو بھی شامل کرنا چاہیے تھا۔ ان کے خیال میں فلم میں ایک بعد از نو آبادیتی تجزیہ دکھایا جا رہا ہے، جو تاریخ کے بارے میں صرف جرمن نقطہ نظر کو بیان کر رہا ہے۔

لیکن کراؤمے اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ وہ اس موضوع پر کسی قسم کے ثقافتی تخصیص سے کام نہیں لینا چاہتے تھے۔ بطور جرمن ہدایت کار ان کے نزدیک کہانی کو ہیریرو اور ناما قبیلوں کے نقطہ نظر سے بیان کرنا درست نہیں تھا۔ اس لیے وہ صرف جرمن نقطہ نظر سے ایک ایسے جرمن کردار کی کہانی بیان کر رہے ہیں جو ایک خاص نظریے کے تحت اپنی تحقیق کرتا ہے۔ اور اس کا یہ عمل ایک طرف سائنسدانوں کے اخلاقی زوال کی نشان دہی جبکہ دوسری طرف جرمن سپرامیسی (برتری) پر ایک سخت تنقید کا پہلو اجاگر کرتا ہے۔

Dreharbeiten | Der vermessene Mensch
کچھ نقادوں نے کراؤمے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فلم کو متعدد زاویوں کی عکاس ہونا چاہیے تھا اور اس میں ہیریرو اور ناما قبائل کے موقف کو بھی شامل کرنا چاہیے تھاتصویر: Willem Vrey

 فلم کا حالیہ دور سے ربط

ڈائریکٹر کراؤمے کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ ان کی یہ فلم جرمنی کے نوآبادیاتی ماضی کے تاریک پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے لیکن یہ آج بھی کئی حوالوں سے صادق آتا ہے، ''جیسا کہ آج بھی افریقہ میں بڑی بڑی جرمن صنعتی کارپوریشنوں کے سائنس دان اور تکنیکی ماہرین موجود ہیں، جو یہ باور کرواتے ہیں کہ وہ افریقہ کی معاشی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں جب کہ دراصل وہ ان کا استحصال کرتے ہیں۔ تاہم درحقیقت اس قسم کا کارپوریٹ کلچر ایک طرح کی جدید غلامی کے تصور کا عکاس ہے۔‘‘

فلم کا مقصد

کراؤمے چاہتے ہیں کہ عوام کو ہر قیمت پر اس بات سے آگاہ ہونا چاہیے، ''ہم ایک زمانے میں ایسی نوآبادیاتی طاقت تھے، جس نے بھیانک جرائم کا ارتکاب کیا تھا اور ماضی میں کیے ان جرائم کوقبول کرنے سے انکار کسی طور سود مند نہیں۔‘‘ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی فلم سے شاید کوئی ایسی تحریک پیدا ہو جس کے تحت نمیبیا کے ساتھ طے کیے گئے زر تلافی کے معاہدوں کو پورا کیا جائے۔

جرمنی نے سن 1884میں نمیبیا پر قبضہ کر لیا تھا اور پہلی عالمی جنگ کے دوران 1915ء میں شکست سے قبل تک یہ علاقہ جرمنوں کے پاس ہی رہا تھا۔

جون سلک (ک ر /  ع ا)