1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کی ٹرمپ سے نمٹنے کے لیے نئی حکمت عملی

عاصم سلیم Fabian von der Mark
25 اگست 2018

روايتی طور پر امريکا اور جرمنی کے باہمی تعلقات اچھے ہی رہے ہيں تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت ميں ايسا بالکل دکھائی نہيں ديتا۔ جرمن وزير خارجہ اب امريکا کے ساتھ ’متوازن پارٹنرشپ‘ کے قيام کے حامی ہيں اور اسی کی کوششوں ميں ہيں۔

https://p.dw.com/p/33kZi
Belgien Tusk empfängt Trump in Brüssel
تصویر: Reuters/E. Vidal

جرمن وزارت خارجہ کا قلم دان سنبھالنے کے بعد پچھلے قريب پانچ ماہ سے ہائيکو ماس بڑی باريکی کے ساتھ امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کا جائزہ لیتے آئے ہيں۔ اہم معاہدوں سے امريکا کی دستبرداری، جرمن مفادات کے خلاف اقدامات، زبانی حملے اور غلط بيانی کے متعدد واقعات۔ اب تک تو ہائيکو ماس خاموش تھے ليکن اب انہوں نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے ايک جرمن اخبار کے ليے ایک مضمون لکھا ہے، جس کا عنوان ہے، ’’ہم امريکا کو اپنے سر کے اوپر سے گزرنے نہيں ديں گے۔‘‘ جرمن وزير خارجہ دونوں ممالک کے اچھے تعلقات کی اہميت اور فوائد سے بخوبی واقف ہيں ليکن اپنی اس تحرير ميں وہ ايسی لکيروں کا ذکر بھی کرتے ہيں جنہيں پار نہيں کيا جانا چاہيے۔

دراصل ہائيکو ماس چاہتے ہيں کہ يورپ مستحکم اور متحد ہو اور مکمل خود مختاری کے ساتھ اپنے فيصلے کر سکے۔ امريکی تھنک ٹينک ’جرمن مارشل فنڈ‘ سے وابستہ يان شاؤ کے مطابق ماس کی تحرير درحقيقت يورپ کو دنيا کے نقشے پر زيادہ نماياں کرنے کے بارے ميں ہے۔ ايک متحد يورپ کی اسٹريٹيجک پوزيشن ميں بہتری کے ليے ماس ايک يورپی سکيورٹی اور ڈيفنس يونين کے قيام کی وکالت کرتے ہيں۔ امريکا پچھلے چند مہينوں ميں ايک ايسے پارٹنر کے طور پر سامنے آيا ہے جس پر اعتماد نہيں کيا جا سکتا۔ يہی وجہ ہے کہ جرمنی اب کينيڈا، جاپان، جنوبی کوريا اور ايسے ديگر ملکوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے، جو بين الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کرتے ہیں۔ جرمن وزير خارجہ بين الاقوامی سطح پر طے شدہ معاہدوں پر عملدرآمد جاری رکھنے والے ممالک کا ايک نيٹ ورک چاہتے ہيں۔ ماس مصر ہيں کہ اس ضمن ميں سب کے ليے دروازے کھلے ہيں اور سب سے پہلے امريکا ہی کے ليے۔ ليکن يان شاؤ کے مطابق يہ دراصل غير رسمی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کھڑے ہونے کی ايک کوشش ہے۔

Heiko Maas - Bundesjustizminister
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

امريکا کی جانب سے ايران کے خلاف اقتصادی پابنديوں کی بحالی کے بعد ہائيکو ماس رقوم کی ادائيگيوں کے ايسے راستے چاہتے ہيں، جن ميں امريکا کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ اس سے نہ صرف ايرانی معيشت کچھ حد تک بچ سکے گی بلکہ يورپی کمپنيوں کو پہنچنے والے مالی نقصانات کو بھی محدود کيا جا سکے گا۔ امريکی تھنک ٹينک ’جرمن مارشل فنڈ‘ سے وابستہ يان شاؤ کا کہنا ہے کہ رقوم کی منتقلی کے موجودہ عالمی نظام SWIFT کا متبادل نظام قائم کرنا کافی مشکل کام ہے ليکن اگر ايسا ہو جاتا ہے، تو يہ مالياتی سيکٹر ميں امريکا کی سبقت پر بڑے حملے کے مساوی ہو گا۔

اپنی تحرير ميں جرمن وزير خارجہ ہائيکو ماس نے يہ بھی لکھا ہے کہ امريکا اور يورپ کئی سالوں سے ايک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہيں۔ جرمنی کی وفاقی مخلوط حکومت میں شامل تین میں سے دونوں قدامت پسند جماعتوں کرسچين ڈيموکريٹک يونين اور کرسچين سوشل يونين کے مشترکہ پارليمانی حزب کے سربراہ ژُرگن ہارٹ کے مطابق وزير خارجہ ماس کے تبصرے اور مستقبل کے حوالے سے توقعات کافی منفی ہيں۔ ان کے بقول امريکا کے ساتھ باہمی تعلقات يقيناً تبديل ہوئے ہيں ليکن يہ امکان موجود ہے کہ محصولات اور ديگر معاملات پر اختلافات صدر ٹرمپ کی آنکھيں کھول ديں اور انہيں ’ٹرانس اٹلانٹک‘ تعلقات کی اہميت سمجھنے ميں مدد دیں۔

يہ ديکھنا ابھی باقی ہے کہ ہائيکو ماس کی اس تحرير کو امريکا اور يورپی سطح پر کيسے ديکھا جائے گا۔ چند جرمن سياستدانوں کی رائے میں اس سے ٹرمپ کے حامی نالاں ہوں گے جبکہ امريکا کے مقابلتاً زيادہ آزاد خيال حلقے اسے اس بات کے ثبوت کے طور پر ديکھيں گے کہ ٹرمپ کی پاليسياں کس طرح بیرونی تعلقات کو متاثر کر رہی ہيں۔