1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

051012 Neonazis D

5 اکتوبر 2012

جرمنی میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں تقریباً 160 مختلف گروپ سرگرمِ عمل ہیں۔ اِن گروپوں کے تشدد کی طرف مائل ارکان کی تعداد کا اندازہ تقریباً دَس ہزار لگایا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/16L1Z
تصویر: dapd

ان عناصر کی پُر تشدد سرگرمیوں کی ایک مثال دارالحکومت برلن میں بائیں بازو کے ایک سیاستدان ہنس ایرکس لیبن کے گھر پر کیا جانے والا حملہ ہے۔ یہ سیاستدان اپنے علاقے میں دائیں بازو کے عناصر کے خلاف سرگرم ِ عمل ہے۔ کچھ لوگوں کی طرف سے پھینکی گئی ایک اینٹ اُس کے اپارٹمنٹ کی کھڑکی توڑ کر اندر آ گری تاہم وہ محفوظ رہا۔ اُس کے پوسٹ بکس میں بھی بارودی مواد رکھا گیا، جو دھماکے سے پھٹ گیا۔

پولیس کا خیال ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے نیو نازی عناصر کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ خود ایرکس لیبن کا کہنا یہ ہے کہ ویسے تو اُسے ایک مدت سے دھمکایا جا رہا ہے تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے ایسی دھمکیوں میں شدت آ گئی ہے۔

اِس طرح کے واقعات کا سامنا کرنے والوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے طور پر اور نیو نازی عناصر کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خلاف احتجاج کے لیے برلن کے علاقے شوئنے وائیڈے میں حال ہی میں ایک جلوس منظم کیا گیا۔

دائیں بازو کی انتہا پسندی پر گہری نظر رکھنے والے ایک ماہر ہائیو فُنکے
دائیں بازو کی انتہا پسندی پر گہری نظر رکھنے والے ایک ماہر ہائیو فُنکےتصویر: picture alliance / dpa

دائیں بازو کے انتہا پسند صرف برلن میں ہی نہیں بلکہ جرمنی کے دیگر علاقوں مثلاً سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر وُوپرٹال میں بھی بہت زیادہ فعال ہیں اور گاہے بگاہے کھلے عام جلوس نکالتے رہتے ہیں۔

وُوپرٹال میں نیو نازیوں کی یہ خود اعتمادی اس لیے اور بھی زیادہ باعث حیرت ہے کہ ابھی حال ہی میں اِس صوبے کی پولیس نے بڑے پیمانے پر کارروائی کرتے ہوئے دائیں بازو کی تین انتہا پسند تنظیموں کو کالعدم قرار دلوا دیا تھا۔ تب کی جانے والی کارروائی میں پولیس کے تقریباً ایک ہزار اہلکار شریک ہوئے تھے۔ ان چھاپوں کے دوران پولیس نے بڑی تعداد میں ہتھیار بھی اپنی تحویل میں لیے تھے۔

دائیں بازو کی انتہا پسندی پر گہری نظر رکھنے والے ایک ماہر ہائیو فُنکے کے خیال میں یہ ہتھیار اس بات کی علامت ہیں کہ یہ عناصر خود کو مسلح کر رہےہیں اور تشدد پر مائل ہیں۔ تاہم حکام کی ایک مشکل یہ ہے کہ ضبط کیے جانے والے زیادہ تر ہتھیار قانونی طور پر خریدے گئے ہوتے ہیں۔ یہ ہتھیار بڑی آسانی کے ساتھ دائیں بازو کے عناصر کی انٹرنیٹ شاپس میں آرڈر کیے جا سکتے ہیں۔

دائیں بازو کے تشدد پر مائل عناصر کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے
دائیں بازو کے تشدد پر مائل عناصر کی تعداد بڑھتی جا رہی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

انٹرنیٹ پر خاص طرح کی جیکٹوں، چاقوؤں اور مخصوص ڈنڈوں کی خرید و فروخت کی نگرانی ایک سابقہ نیو نازی تھورسٹن ہائزے اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر کر رہا ہے۔ ہائزے صوبے تھیورنگیا میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت این پی ڈی کا ڈپٹی صوبائی چیئرمین ہے اور اُسے متعدد بار سزا بھی ہو چکی ہے۔

تھورسٹن ہائزے کا نام اُن تفتیشی فائلوں میں بھی موجود ہے، جن کا تعلق متعدد تارکین وطن کو قتل کرنے والے دائیں بازو کے تین دہشت گردوں سے ہے۔ یہ شخص ایک عرصے سے پولیس کی نظر میں ہے۔ ہائزے کے دیگر ممالک کے دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر سے بھی مستقل رابطے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ انتہا پسند عناصر مسلسل طاقتور ہوتے جا رہے ہیں اور چند ایک گروپوں کے ہاں چھاپے اور اُن پر پابندی محض ایک چھوٹے سے ابتدائی اقدام کی حیثیت رکھتے ہیں۔

P. Dangelmayer / aa / mm