1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں ہر ایک پر ماسک لازم

23 اپریل 2020

جرمنی ميں ہر شہری پر منہ اور ناک کی حفاظت کے لیے ماسک لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ خاص طور سے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرنے اور خریداری کے دوران۔

https://p.dw.com/p/3bIQI
Deutschland | Coronavirus | Maskenpflicht
تصویر: imago images/A. Friedrichs

وفاقی جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائير نے شہریوں کو روزمرہ معاملات زندگی ميں ذمہ داراری کا ثبوت دينے کی تنبیہ کی ہے۔ جراحی ماسک کے علاوہ ، خود ساختہ ماسک کپڑے ،اسکارف یا تولیے سے بھی تیار کيے جا سکتے ہيں جو حفاظتی رکاوٹ کے طور پر موثر ثابت ہوتے ہيں۔

جرمنی کے بیشتر صوبوں ميں انفیکشن سے بچنے کے ليے منہ اور ناک کے تحفظ کے لیے ماسک کے لازمی استعمال کا اطلاق اگلے ہفتے سے شروع ہوگا۔ اس سلسلے میں آخری وفاقی ریاست کی حیثیت سے بریمن نے بھی یہ اعلان کر دیا ہے۔ اس ضمن ميں صرف ایک استثنا دارالحکومت برلن ہے۔ وہاں دکانوں میں ماسک پہننا ضروری نہیں ہے۔

گ‍ذشتہ ہفتے بدھ کو چانسلر انگیلا میرکل اور وفاقی ریاستوں کے وزرائے اعلی نے ایک ویڈیو کانفرنس کے ذريعے مشاورت کی تھی جس کے بعد انہوں نے مقامی عوامی نقل و حمل کے ذرائع کے استعمال اور اشیائے خوردونوش کی دکانوں میں ماسک پہننے کی "سختی سے تاکيد " پر اتفاق کیا تھا۔

***ACHTUNG: SPERRFRIST! Keine Verwendung vor 17:00 Uhr, 11.04.2020!***  Deutschland Berlin | Coronavirus | Frank-Walter Steinmeier, Bundespräsident
تصویر: Getty Images/Bundesregierung

جرمنی ميں ماسک کا رضاکارانہ استعمال

جرمنی میں شہريوں ميں صحت عامہ اور حفظان صحت سے متعلق شعور و آگہی کافی حد تک پائی جاتی ہے۔ کورونا وائرس کے پھيلاؤ کے آغاز سے ہی بعض شہریوں نے خریداری کے دوران رضاکارانہ بنیادوں پر ماسک کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ منہ اور ناک کو ڈھانپنے کی ضرورت اس لیے ہے کہ کھانسنے یا چھينکنے کی صورت ميں نادانستہ طور پر ايک سے دوسرے انسان ميں کورونا وائرس منتقل ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خطرے کو کم سے کم کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ سرجیکل ماسک کے علاوہ خود سے تیار کيے گۓ ماسک یا اسکارف کے حفاظتی رکاوٹ کے طور پر استعمال کی اجازت دی جاتی ہے۔

SARS-CoV-2  کھانسی یا بولنے کے دوران ڈراپلیٹس سے ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے رابطے اور باہر جانے پر سخت پابندیوں کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے کم از کم ڈیڑھ میٹر کی دوری رکھنے کی ہدایات بھی ہفتوں سے نافذ العمل ہيں۔

جرمن صدر کی سماجی اظہار یکجہتی کی اپیل

فرانک والٹر اشٹائن مائير کا کہنا ہے کہ سوشل ڈسٹنسنگ اور ديگر پابنديوں ميں پہلی نرمی کے پیش نظر  یہ ضروری ہے کہ پچھلی کامیابی کو خطرے میں نہ ڈالا جائے۔

وفاقی صدر نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ کورونا کے وبائی مرض میں مستعدی اور ذمہ داری کا مظاہرہ جاری رکھیں۔ جرمنی کے صدر مملکت نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ، ابتدائی نرمی کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ "ہم تحفظ کے راستے کو خطرے میں نہ ڈالیں"۔

کورونا کے منفی اقتصادی اثرات

کورونا بحران کے نتيجے ميں  بہت سارے لوگوں کو مشکل معاشی صورتحال کا سامنا ہے۔ اس ضمن ميں فرانک والٹر اشٹائن مائير نے یکجہتی اور منصفانہ تعاون پر زور دیتے ہوئے کہا، ''بحران گرچہ سب کو متاثر کرتا ہے لیکن اس سے سب یکساں طور پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ معیشت میں بہت سے چھوٹے کاروبار کے مالکان سرائے اور ہوٹلوں کے مالک اور فری لانسرز اور ثقافتی کارکن متاثر ہوتے ہین اور اکثر نہیں جانتے کہ وہ کب تک معاشی مشکلات سہ سکيں گے۔ شاید ہی کسی کو دھوپ اور روشن دن میں گھر میں رہنا اچھا لگتا ہو۔ چاہے آپ کے گھر کے چاروں طرف کتنی ہی ہریالی کيوں نہ ہو بالکونی کے بغیر ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں چار بچوں کے ساتھ وقـت گ‍زارنا بہت کٹھن ہوتا ہے۔‘‘

اس تناظر میں جرمن صدر نے کاروباری اور متاثرہ افراد کے ساتھ ديگر شہريوں کے اظہار یکجہتی کی تعریف کی۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم نے مل کر جو خوشحالی حاصل کی ہے اس میں سے کچھ ہميں ترک کرنا ہوگی۔‘‘ اشٹائن مائر نے ساتھ ہی امید کا اظہار کرتے ہوئےکہا،’’جس طرح ہم ایک ساتھ مل کر وائرس کو مات دیں گے، ہم معاشی مشکلات سے نکلنے کے ليے تندہی اور تدبر کے ساتھ کام کریں گے۔‘‘

ک م، ع ت (ڈی پی اے ، اے ایف پی)