جرمنی میں دس قدرتی شاہکار
دنیا میں جا بجا قدرتی لینڈ اسکیپ بکھرے ہوئے ہیں اور لوگ ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جرمنی بھی ایسے کئی قدرتی عجوبوں کا حامل ملک ہے۔ ان میں عجیب و غریب چٹانیں، نیلگوں پانی اور پریوں کے دیس جیسے علاقے ہیں۔
سیکسنی میں سوئٹزرلینڈ
جرمن شہر ڈریسڈن سے کچھ ہی دور وادیٴ ایلب میں ریتلے پتھروں والے پہاڑ کوہ پیماؤں اور مہم جو افراد میں بہت مقبول ہیں۔ اس پہاڑی سلسلے کی چٹانوں کی ہیئت اور خوبصورت غاروں کی وجہ سے اسے ’سیکسنی میں سوئٹزرلینڈ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سوئٹزرلینڈ میں ایلپس کے پہاڑی سلسلے کی وہ جھلک ہے، جو ان غاروں اور چٹانوں میں دکھائی دیتی ہے۔
نیلگوں سطح والی جھیل
صوابیہ آلب کے علاقے کی پہاڑی چٹانوں میں گھری سبزی مائل نیلی ’بلاؤٹوپف‘ جھیل قدرت کا ایک انتہائی حسین شاہکار ہے۔ اس جھیل کا پانی مختلف غاروں میں سے بھی گزرتا ہے۔ ان غاروں میں جھیل کے پانی میں کیلشیم کاربونیٹ بھی مل جاتا ہے اور پھر کیمیائی آمیزش والا یہی پانی جب زمین کی سطح تک پہنچتا ہے تو اس جھیل کی بالائی تہہ سورج کی روشنی میں نیلگوں دکھائی دیتی ہے۔
لیُونے برگ کی ارغوانی جھاڑیاں
ارغوانی جھاڑیاں ہیمبرگ، ہینوور اور بریمن کے درمیانی علاقے میں ایک خاص موسم میں ملتے ہیں۔ اس رنگت کی جھاڑیوں کے عروج کا وقت اگست سے ستمبر تک کا ہوتا ہے۔ اس عرصے میں سارے علاقے میں کروڑوں ارغوانی پھول زمین کو ڈھانپ کر ایک نیا رنگ پیش کرتے ہیں۔ اس علاقے کو محفوظ رکھنے کی خاطر وہاں موٹر گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ اس علاقے میں گھوڑوں والی بگھیوں میں سورا ہو کر، پیدل یا پھر سائیکل پر جایا جا سکتا ہے۔
رُیوگن کی کھریا مٹی کی ڈھلوانی چٹانیں
بحیرہ بالٹک کے جزیرے رُیوگن میں کھریا مٹی والی ڈھلوانی چٹانیں بھی قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ ان کی بلندی 120 میٹر یا 393 فٹ تک ہے۔ ان چٹانوں نے کئی مصوروں کو حوصلہ دیا کہ وہ انہیں کینوس پر اتارنے کی کوشش کریں۔ ان میں سے خاص طور پر قدرتی مناظر کے جرمن رومانویت پسند مصور کاسپر ڈیوڈ فریڈرش کو بہت شہرت ملی۔ انہوں نے سن 1818 میں ان چٹانوں کی پینٹنگز بنائی تھیں۔
ہیلگو لینڈ کی بلند سمندری چٹان
سن 1860 تک سینتالیس میٹر (154 فٹ) اونچی سمندری چٹان ’لانگے آنا‘ (لمبی آنا) ہیلگو لینڈ میں ایک قدرتی چٹانی پل کی طرح تھی۔ سن 1860 میں یہ سمندری اسٹیک پل گر گیا تھا۔ اب بچی کھچی بلند چٹان کو سمندری پانی سے مزید تباہ ہونے سے بچانے کے لیے ایک بیریئر بنا دیا گیا ہے۔ یہ ہیلگو لینڈ کی ایک اہم شناخت ہے۔
ٹری برگ آبشار
دریائے گُوٹ آخ کا پانی 163 میٹر(535 فٹ) کی بلندی سے سات سیڑھیوں کی سی شکل میں نیچے گرتا ہے۔ جرمن علاقے ٹری برگ میں واقع یہ آبشار ملک کی سب سے بلند آبشار ہے۔ گرمی میں برف پگھلنے سے اور بارانی موسم میں اس آبشار کی رونق قابل دید ہوتی ہے۔
بحیرہ واڈین
یہ ایک حقیقت ہے کہ بحیرہ واڈین ایک قدرتی عجوبہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو نے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے سن 2009 میں عالمی ورثے میں شامل کیا تھا۔ کم بلند سمندری لہروں کی وجہ سے اس کی ساحلی پٹی دس ہزار سے زائد جانوروں اور پودوں کی افزائش کا علاقہ ہے۔
آندرناخ میں ٹھنڈے پانی کا فوارہ
زمین کے اندر سے پھوٹنے والے فوارے کو ’گیزر‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ خیال ہے کہ ایسے فوارے صرف آتش فشانی جزیروں کے ملک آئس لینڈ میں موجود ہیں۔ جرمنی کی وسطی وادئ رائن میں واقع شہر آندرناخ میں بھی ایسا ایک ہی گیزر ہے۔ ہر دو گھنٹوں بعد اس شہر کے ایک مقام پر ساٹھ میٹر (193 فٹ) بلند پانی کا فوارہ بلند ہوتا ہے۔ اس کی وجہ زیرِ زمین آتش فشانی پٹیوں میں سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بنتی ہے۔
جادوئی حسن والی غاریں
زال فَیلڈ کی جادوئی غاروں کا اپنا ہی ایک پراسرار حسن ہے۔ یہ تھیورنگیا میں سلیٹ کے پہاڑوں میں سینکڑوں برس قبل کان کنی کی وجہ سے تشکیل پائی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اندرونی پہاڑیوں میں سے رسنے والے بلوریں پانی نے ان غاروں کو عجیب و غریب سحر سے نواز دیا۔ سن 1993 میں گینس بک آف ریکارڈز میں انہیں دنیا کی سب سے زیادہ رنگ برنگی غاروں کے طور پر شامل کیا گیا۔
زار کا پھندا نما حلقہ (لُوپ)
جرمن ریاست زارلینڈ میں میٹلاخ کے مقام پر دریائے زار ایک یُو ٹرن لیتا ہے۔ یہ یُو ٹرن یعنی لُوپ یا پھندا نما حلقہ لاکھوں پکچر پوسٹ کارڈز کی زینت بن چکا ہے۔ یہ قدرتی منظر ایک چھوٹے سے گاؤں ’اورشولس‘ میں نظر آتا ہے۔ اسے دیکھنا قدرتی حسن کا ایک ناقابلِ بیان نظارہ قرار دیا جاتا ہے۔