1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں حکومت سازی کی کوشش: ’سب کچھ یا کچھ بھی نہیں‘

شمشیر حیدر نیوز ایجنسیاں
21 جنوری 2018

جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی انگیلا میرکل کی سی ڈی یو کے ساتھ نئی مخلوط حکومت میں شمولیت کے معاملے پر منقسم ہے۔ آج جرمن شہر بون میں ایس پی ڈی نئی وفاقی مخلوط حکومت میں اپنی شمولیت سے متعلق حتمی فیصلہ کرے گی۔

https://p.dw.com/p/2rFJ9
Außerordentlicher SPD-Parteitag SPD-Parteivorsitzender Martin Schulz
تصویر: picture alliance/dpa/F. Gambarini

جرمنی کے سابق دارالحکومت بون میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا 45 رکنی وفاقی بورڈ اور چھ سو نمائندے چانسلر میرکل کے قدامت پسند اتحاد کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہونے کے بارے میں حتمی فیصلے کے لیے رائے شماری میں حصہ لے رہے ہیں۔ آج کے اس اجلاس کے بعد یہ طے ہو جائے گا کہ جرمنی میں بڑی سیاسی جماعتوں کے ’وسیع تر اتحاد‘ سے ایک مستحکم وفاقی حکومت کا قیام عمل میں آئے گا یا پھر ملک سیاسی بحران کا شکار ہونے جا رہا ہے۔

مزید پڑھیے: جرمنی میں نئی حکومت کیسی ہو گی؟

مزید پڑھیے:جرمن انتخابات، دونوں بڑی جماعتیں کیا کہہ رہی ہیں؟

اگر ایس پی ڈی نے آج مخلوط حکومت میں نہ شامل ہونے کے حق میں ووٹ دے دیا تو جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے لیے دو ہی راستے رہ جائیں گے، یا تو انہیں تھوڑی سی اکثریت کے ساتھ ایک غیر مستحکم حکومت چلانا پڑے گی، یا ملک میں نئے عام انتخابات کرائے جائیں گے۔

جنوبی صوبے باویریا میں چانسلر میرکل کی اتحادی جماعت سی ایس یو کے سربراہ ہورسٹ زیہوفر نے کثیر الاشاعتی جرمن اخبار بلڈ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر آج کے اجلاس میں ایس پی ڈی کے ارکان نے مخلوط حکومت میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا تو یہ فیصلہ جرمنی کی ’سیاسی تباہی‘ کا باعث بن جائے گا۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں سب سے صرف یہی اپیل کر سکتا ہوں کہ ملک میں مستحکم حکومت کے قیام میں مدد کریں۔‘‘

سیاسی اہمیت اور پس منظر

گزشتہ برس ستمبر کے ملکی انتخابات کے نتائج جرمنی کی دونوں روایتی بڑی جماعتوں، میرکل کی سی ڈی یو اور شُلس کی ایس پی ڈی، کے لیے انتہائی مایوس کن ثابت ہوئے تھے۔ ملک میں دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاسی جماعت اے ایف ڈی تیسری بڑی سیاسی طاقت بن کر سامنے آئی تھی۔ چانسلر میرکل کے قدامت پسند اتحاد کی وفاقی پارلیمان میں نشستیں پھر بھی سب سے زیادہ رہیں، لیکن ایس پی ڈی کو اپنی سیاسی تاریخ میں سب سے کم ووٹ ملے تھے۔

ایس پی ڈی گزشتہ انتخابات کے بعد سے اب تک برسراقتدار مخلوط حکومت میں بھی چانسلر میرکل کے قدامت پسند اتحاد کے ساتھ وفاقی جرمن حکومت کا حصہ ہے۔ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی اس جرمن سیاسی جماعت کے ارکان انتخابات کے مایوس کن نتائج کا الزام مخلوط حکومت کا حصہ بننے پر بھی عائد کر رہے تھے۔ اسی وجہ سے ایس پی ڈی کے رہنما مارٹن شُلس نے انتخابات کے فوراﹰ بعد اعلان کر دیا تھا کہ ایس پی ڈی دوبارہ مخلوط حکومت کا حصہ نہیں بنے گی۔

چانسلر میرکل کی جماعت نے ملک میں نئی مخلوط حکومت کے قیام کے لیے دو چھوٹی جماعتوں ایف ڈی پی اور گرین پارٹی سے مذاکرات شروع کیے تھے۔ تاہم انتہائی مختلف سیاسی نظریات رکھنے والی ان جرمن سیاسی جماعتوں کے مابین مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔

مذاکرات کی ناکامی کے بعد جرمن صدر نے ملک میں دوبارہ انتخابات سے بچنے کے لیے ایس پی ڈی اور سی ڈی یو کو مخلوط حکومت سازی کی دعوت دی تھی۔ حال ہی میں ایس پی ڈی نے سی ڈی یو اور سی ایس یو کے قدامت پسند دھڑے کے ساتھ مخلوط حکومت کے قیام سے متعلق ابتدائی مذاکرات کے لیے بنیادی نکات پر اتفاق کر لیا تھا۔

اپس پی ڈی میں تقسیم

ایس پی ڈی کے سربراہ مارٹن شُلس کو مخلوط حکومت میں شمولیت کے فیصلے پر پارٹی کی نوجوان قیادت کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ تاہم ممکنہ مخلوط حکومتی مذاکرات کے لیے جن نکات پر سمجھوتہ کیا گیا ہے، ان پر پارٹی کے دیگر سرکردہ رہنما بھی شُلس سے نالاں ہیں۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بائیں بازو کے نظریات رکھنے والی اس سیاسی جماعت نے مہاجرت، ٹیکس اور صحت کی سہولیات جیسے اہم موضوعات پر دائیں بازو کے قدامت پسند اتحاد کو بہت زیادہ رعایات دے دی ہیں۔

مارٹن شُلس آج کی پارٹی کانگریس میں مخلوط حکومت میں شمولیت کے حق میں ووٹ ڈالنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ جمعے کے روز پارٹی ارکان کے نام لکھے گئے خط میں ان کا کہنا تھا کہ آج اتوار کی رائے شماری ’نہ صرف جرمنی اور یورپ کے سیاسی مستقبل کے لیے بہت اہم ہے بلکہ ایس پی ڈی کے اپنے سیاسی مستقبل کا انحصار بھی مخلوط حکومت میں شمولیت پر ہے‘۔ جرمن جریدے ’ڈئر اشپیگل‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں شُلس کا کہنا تھا کہ اگر ’نہ‘ کے حق میں ووٹ ڈالا گیا تو فوری طور پر نئے انتخابات ہو سکتے ہیں اور خدشہ ہے کہ ان انتخابات میں عوام ایس پی ڈی کو ملک میں سیاسی استحکام نہ لانے پر سزا بھی دے سکتے ہیں۔

دوسری جانب مخلوط حکومت میں شمولیت کے خلاف مہم پارٹی کے یوتھ ونگ کے صدر کیون کیونرٹ نے شروع کر رکھی ہے۔ ایس پی ڈی کے نوجوان ارکان کی رائے میں اگلے چار برس اپوزیشن میں بیٹھنا ایس پی ڈی کے سیاسی مستقبل کے لیے اہم ہے۔ کیونرٹ کے مطابق انہیں امید ہے کہ آج کی پارٹی کانگریس میں پارٹی ارکان مخلوط حکومت میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کریں گے۔

مزید پڑھیے:اتحاد کے لیے مہاجرین کی حد مقرر کرنے کا مطالبہ ختم

مزید پڑھیے:ایس پی ڈی مقبولیت میں حکمران جماعت کے برابر