جرمنی میں ایک سال میں کم عمری کی ایک ہزار سے زیادہ شادیاں
16 اگست 2016گزشتہ کچھ عرصے کے دوران جرمنی میں خصوصاً ترک وطن کر کے آنے والے روما نسل کے باشندوں میں لڑکیوں کی کم عمری ہی میں شادیوں کے زیادہ واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔ ایسا کرنے کا مقصد ان لڑکیوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنا بتایا جاتا ہے۔
جرمن شہر بامبیرگ کی اعلیٰ صوبائی عدالت کا وہ تازہ فیصلہ بہت زیادہ سیاسی اور سماجی اہمیت کا حامل ہے، جس میں ججوں نے ایک پندرہ سالہ شامی لڑکی اور اُس کے اکیس سالہ شوہر کی شام میں ہونے والی شادی کو تسلیم کر لیا۔ یہ دونوں مہاجرین کے طور پر شام سے فرار ہو کر جرمن صوبے باویریا آئے تھے۔ اس سے پہلے نوعمروں کے امور کے دفتر نے اس شادی کو نامنظور کرتے ہوئے اس شامی لڑکی کو اپنی نگرانی میں لینے کی کوشش کی تھی، جس پر اس نوجوان جوڑے نے عدالت سے رجوع کر لیا تھا۔
ججوں نے پیراگراف 1633 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک شادی شُدہ کم سن لڑکی خود یہ فیصلہ کرنے کا حق رکھتی ہے کہ وہ کہاں رہے گی اور کس کے ساتھ تعلق رکھے گی۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ شادی جرمنی میں نہیں بلکہ شام میں وہاں کے قانون کے تحت جائز طور پر ہوئی تھی۔
جرمن شہر اشافن برگ کی انتظامیہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’ٹیرے ڈے فَیم‘ نے اس فیصلے کو یہ کہہ کر رَد کر دیا ہے کہ کم عمری کی شادیاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں کیونکہ دولہا یا دلہن اپنی کم عمری کے باعث اپنی شادی کے اثرات کا اندازہ لگانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اس تنظیم کے مطابق یہ فیصلہ کم عمری کی شادیوں کے خلاف اب تک حاصل کی گئی کامیابیوں کو ناکامیوں میں بدل دے گا۔
کئی جرمن صوبوں کی امورِ انصاف کی وزارتیں بھی اس حوالے سے شک و شبہ ظاہر کرتے ہوئے یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ جرمنی میں اب تک کے قانون کے برعکس، جس میں ماں باپ کی مرضی سے سولہ سال کی عمر سے شادی کی اجازت ہے، آئندہ سے شادی کے لیے کم از کم عمر اٹھارہ سال کر دی جائے۔
خاندانی امور کی ایک سابق خاتون جرمن وزیر الزبتھ ونکلمائر بیکر نے کہا:’’اس طرح کی بچوں کی شادیاں ہماری اَقدار سے ہم آہنگ نہیں کیونکہ شادی دو بالغ انسانوں کی آزاد مرضی سے ہوا کرتی ہے اور اس کا فیصلہ رشتے دار یا روایات نہیں کر سکتیں۔