1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی ميں مہاجر بچوں کے ليے تعليم کا خصوصی نظام کيا ہے؟

12 مارچ 2018

مشرقی يورپ، افغانستان اور شام جيسے ملکوں سے جرمنی آنے والے تارکين وطن کے بچے انضمام کے کورسز ميں ايک ساتھ شامل ہوتے ہيں۔ مختلف پس منظر کے حامل ان بچوں ميں ايک عنصر يکساں ہے اور وہ ہے اس نئے ملک ميں آگے بڑھنے کی لگن۔

https://p.dw.com/p/2u9SX
Serbien Belgrad Flüchtlinge
تصویر: Getty Images/AFP/O. Bunic

پندرہ سالہ افغان تارک وطن عزيز احمد نوری پچھلے دو برس سے جرمنی ميں ہے۔ وہ تنہا سفر کر کے پناہ کے ليے جرمنی پہنچا تھا۔ نوری نے بتايا، ’’ميں نے اپنا سفر پيدل شروع کيا تھا اور پھر کسی نے مجھے گاڑی ميں جگہ دی۔ بعد ميں سفر کا کچھ حصہ ريل گاڑی اور بسوں کے ذريعے بھی کاٹا اور اختتام پر مجھے پھر پيدل سفر کرنا پڑا۔ آسٹريا پہنچ کر ميں نے اور ميرے ايک ساتھی نے جرمن شہر ميونخ کے ليے ٹرين پکڑ لی تھی۔‘‘ نوری کے بقول اسے ابتداء ميں جرمن زبان بالکل نہيں آتی تھی۔

عزيز احمد نوری جرمن شہر اوبرہاؤزن کے ’بيرتھا فان زُودنر ہائی اسکول‘ ميں انضمام کے کورس ميں شامل ہے۔ اس کورس ميں شامل ديگر طلباء گرچہ ايک دوسرے سے بالکل مختلف پس منظر کے حامل ہيں تاہم وہ سب کے سب اپنے اپنے آبائی ممالک ميں تشدد اور ديگر مسائل سے فرار ہو کر پناہ کے ليے جرمنی آئے ہيں اور اب اس نئے ملک ميں آگے بڑھنے کی تگ و دو ميں ہيں۔ افغان تارک وطن نوری اس وقت ايک بورڈنگ ہاؤس ميں مقيم ہے اور بڑی روانی کے ساتھ جرمن زبان بولنے لگا ہے۔ وہ مستقبل ميں انجينئرنگ پڑھنا چاہتا ہے۔ تعليم کے شعبے ميں بھی اس نے کافی پيش رفت دکھائی ہے۔ اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے تو جرمنی ميں انجينيئرنگ کے شعبے ميں کارآمد لوگوں کی مانگ کو مد نظر رکھتے ہوئے يہ کہا جا سکتا ہے کہ عزيز احمد نوری کو ایک اچھی ملازمت ملنے کی قوی امکانات ہيں۔

يہ امر اہم ہے کہ حساب، انفارميشن ٹيکنالوجی، نيچرل سائنسز اور انجينيئرنگ کے جرمنی ميں ہونے والے MINT نامی ايک مقابلے ميں دوسری پوزيشن مہاجر بچوں پر مشتمل کلاس نے حاصل کی۔ اُوبرہاؤزن کا ’بيرتھا فان زُودنر ہائی اسکول‘ ايک عرصے سے انضمام کی کلاسز کا اہتمام کرتا آيا ہے۔ اسکول ميں 1980ء سے مہاجرين بچوں کے ليے خصوصی کلاسز کا انتظام کيا جاتا رہا ہے۔ اس وقت بلقان خطے کی جنگ اور سری لنکا ميں تامل باغيوں کے خلاف جنگ سے متاثرہ پناہ گزين جرمنی آئے تھے اور انہی کے ليے ايسی خصوصی کلاسز کا انتظام کيا گيا تھا۔

پندرہ تا اٹھارہ سالہ مہاجر بچوں کے ليے انضمام کی ايسی کلاسز روايتی جرمن کلاسز سے ذرا مختلف ہوتی ہيں۔ ان ميں نصاب بھی مختلف ہوتا ہے۔ اگرچہ تمام مضامين ميں تعليم دی جاتی ہے تاہم مرکزی توجہ زبان سکھانے کو حاصل ہوتی ہے۔ دلچسپ بات يہ ہے کہ مختلف پس منظر والے طلباء کی موجودگی کے سبب کبھی کبھار اساتذہ کو کوئی بات سمجھانے ميں دقت پیش آتی ہے، تو طلباء ايک دوسرے کے ليے ترجمہ کرتے ہيں۔ کبھی کبھی حرکت کر کے يا پھر کسی فعل کو حقيقی طور پر کر کے بھی بات سمجھائی جاتی ہے۔

پھر جب ان مہاجر بچوں کی جرمن زبان اتنی اچھی ہو جاتی ہے، تو انہيں آہستہ آہستہ روايتی جرمن اسکولوں ميں داخلہ دے ديا جاتا ہے۔

’لاکھوں میں ایک‘، پاکستانی تارک وطن پر دستاویزی فلم

ع س / کارسٹن گرون / اا