1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی: حکمراں اتحادی جماعتیں اہم انتخابی اصلاحات پر متفق

26 اگست 2020

جرمنی کی وسیع تر مخلوط حکومت اس انتخابی اصلاحات پر متفق ہوگئی ہے جس کا مقصد جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں، بنڈس ٹاگ، میں اراکین کی تعداد کو کم کرنا ہے۔

https://p.dw.com/p/3hVai
Berlin Bundestagssitzung Regierungserklärung
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/E. Contini

جرمن سیاست داں، بنڈس ٹاگ یعنی پارلیمان کو مزید وسیع کرنے اور مزید قانون سازوں کو شامل کرنے سے روکنا چاہتے ہیں۔  نئی  اصلاحات کے نتیجے میں 2025 میں ہونے والے انتخابات میں انتخابی حلقوں (اضلاع) کی تعداد 299 سے گھٹ کر 280 رہ جائے گی۔

منگل کے روز طویل بحث و مباحثے کے بعد چانسلر انگیلا میرکل کی کرسچن ڈیموکریٹک یونین(سی ڈی یو)، باویریا میں ان کی حلیف یا'سسٹر پارٹی ‘ کرسچن سوشل یونین اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) دومرحلے پر مشتمل انتخابی اصلاحات پر متفق ہوگئیں۔ ان اصلاحات کا آغاز اگلے برس ہوگا اور جس کے تحت 2025 میں ہونے والے انتخابات تک انتخابی حلقوں کی تعداد 299 سے گھٹا کر 280 کردی جائے گی۔

اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ اگر انتخابی اصلاحات نہیں کی گئیں تو اگلے سال کے انتخابات کے بعد بنڈس ٹاگ کے لیے 800 سے زیادہ اراکین منتخب ہوجائیں گے اور یہ کھچا کھچ بھر جائے گی۔

اس وقت بنڈس ٹاگ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ایوان ہے، جہا ں 709 اراکین پارلیمان بیٹھتے ہیں۔ یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی پارلیمان بھی ہے۔ اس معاملے میں جرمنی صرف چین سے پیچھے ہے، جہاں چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کہلانے والی پارلیمان میں 2980 اراکین کے لیے نشستیں ہیں۔

	Infografik Vergleich Anzahl Abgeordnete Parlamente EN

آٹھ گھنٹے کی طویل بحث و مباحثے کے بعد مخلوط حکومت کے رہنما اتفاق رائے پر پہنچ گئے۔ سی ڈی یو کے رہنما کا کہنا تھا کہ بات چیت 'خاصی مشکل‘ رہی۔  سی ایس یو کے رہنما کے مطابق ’بات چیت مشکل تھی لیکن بالآخر ہم ایک صحیح مصالحت پر پہونچ گئے۔‘  ایس ڈی پی کے رہنما نوربرٹ والٹر بھی بات چیت سے مطمئن نظر آئے۔  انہوں نے کہا کہ اس معاہدے سے اس امر کو یقینی بنایا جاسکے گا کہ 2021 کے انتخابات کے بعد بنڈس ٹاگ پہلے کے مقابلے چھوٹا ہوگا۔ ا یس ڈی پی کے رہنما کا کہنا تھا ”ایک اہم بریک لگائی جائے گی۔“

دیگر انتخابی اصلاحات کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی۔ ان پر 2021 کے ملک گیر انتخابات کے بعد نظر ثانی کی جائے گی۔ ان اصلاحات میں ووٹ ڈالنے کی عمر کم کرکے 16 برس کرنے، پارلیمان کی مدت چار برس سے بڑھا کر پانچ برس کرنے اور بنڈس ٹاگ میں خواتین کو مساوی نمائندگی دینے کی تجاویز شامل ہیں۔

خیال رہے کہ ایک پارلیمانی جمہوری نظام والی ریاست کے طور پر جرمنی کی وفاقی مقننہ کے بھی دو ایوان ہیں۔ ان میں سے ایک عوام کا نمائندہ ایوان زیریں ہے، جو بنڈس ٹاگ کہلاتا ہے تو دوسرا وفاقی صوبوں یا ریاستوں کا نمائندہ پارلیمانی ایوان بالا ہے، جسے جرمن زبان میں بنڈس راٹ یا وفاقی کونسل کہتے ہیں۔

جرمنی میں صوبائی اور وفاقی پارلیمانی اداروں کے ارکان کا انتخاب افراد کی بنیاد پر متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت عمل میں آتا ہے۔ ہر ووٹر کے دو ووٹ ہوتے ہیں۔ ایک ووٹ کسی امیدوار کو دیا جاتا ہے اور سب سے زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار فاتح ہوتا ہے۔ دوسرا ووٹ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کو دیا جاتا ہے۔ یہ دوسرا ووٹ پہلے کی نسبت زیادہ اہم ہوتا ہے اور پارلیمان میں کسی بھی جماعت کو ملنے والی اکثریت کا انحصار زیادہ تر اسی دوسرے ووٹ پر ہوتا ہے۔

جرمنی کا سیاسی نظام، ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک رول ماڈل

یہ اسی انتخابی نظام کا نتیجہ تھا کہ 2017ء کے وفاقی الیکشن کے نتیجے میں 598 کی طے شدہ تعداد کے مقابلے میں 709 عوامی نمائندے بنڈس ٹاگ کے رکن بنے۔

دنیا کے دو سب سے بڑے پارلیمانی اداروں کے طور پر چین اور جرمنی کا موازنہ کیا جائے تو چین میں ایک رکن پارلیمان اوسطاً پونے پانچ لاکھ شہریوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کے برعکس جرمنی میں ہر ایک لاکھ سترہ ہزار شہریوں کے لیے ایک رکن پارلیمان موجود ہے۔

جرمنی کے وفاقی آڈٹ آفس کے اعداد و شمار کے مطابق بنڈس ٹاگ کے اراکین، ان کے معاون کارکنوں اور دفاتر وغیرہ پر سالانہ ٹیکس دہندگان کے تقریباً ایک ارب یورو خرچ کیے جاتے ہیں۔

کئی سیاسی ماہرین یورپی یونین میں آبادی کے لحاظ سے اس سب سے بڑے ملک کو اپنے ہاں مروجہ انتخابی قوانین میں ترجیحی بنیادوں پر اصلاحات کی ضرورت پر زوردیتے رہے ہیں تاکہ بنڈس ٹاگ کو مزید بڑا ہونے اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔

ج ا  /  ص ز (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں