1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی بہت سے کیمیائی ہتھیار حاصل اور نصب کرنا چاہتا تھا

کرسٹوف ہائنسلے، لینا گیورٹلر، گابور ہالاش، جینیفر لانگے / مقبول ملک
3 مئی 2018

وفاقی جمہوریہ جرمنی نے سرد جنگ کے دور میں انیس سو ساٹھ کی دہائی میں بہت سے کیمیائی ہتھیاروں کے حصول اور تنصیب کی کوشش کی تھی، جو ناکام رہی تھی۔ یہ انکشاف امریکی حکومت اور جرمن فوج کی خفیہ دستاویزات کے تجزیے سے ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/2x6Rz
تصویر: WDR/Monitor

اب ہونے والا یہ انکشاف سیاسی طور پر اس دور سے متعلق ہے جب 60 کے عشرے میں سرد جنگ کا زمانہ اپنے عروج پر تھا اور 1963ء میں منقسم جرمنی کے مغربی حصے پر مشتمل وفاقی جمہوریہ نے امریکا سے ایک درخواست کی تھی۔

امریکا اور جرمنی کی مسلح افواج کی طرف سے حال ہی میں نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ پرانی جو خفیہ عسکری دستاویزات جاری کر دی گئی تھیں، ان کا تحقیقی تجزیہ چند جرمن میڈیا ہاؤسز نے مشترکہ طور پر کیا۔ اخبار ’زُوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ اور دو نشریاتی اداروں این ڈی آر اور ڈبلیو ڈی آر کے ماہر صحافیوں نے اس بارے میں جو چھان بین کی، یہ انکشاف اسی کے نتیجے میں ممکن ہو سکا۔

Geheimes deutsches C-Waffenprogramm in den 60-er Jahren Seite 1
کیمیائی ہتھیاروں کی فراہمی کے لیے امریکا سے کی گئی جرمن درخواست سے متعلق ایک مرکزی دستاویزتصویر: US National Archives/Harvard Sussex Programme

اہم بات یہ ہے کہ ماضی میں مغربی جرمنی اور پھر متحدہ جرمنی کی وفاقی حکومت اور وفاقی فوج نے ہمیشہ اس بات سے انکار کیا تھا کہ جرمنی نے کبھی کیمیائی ہتھیاروں کے حصول، ان کی تنصیب یا ممکنہ استعمال کا کوئی منصوبہ بنایا تھا۔

اب عام کر دی گئی ان جرمن امریکی فوجی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ سابقہ مغربی جرمنی کی وزارت دفاع نے انیس سو تریسٹھ میں امریکی حکومت سے درخواست کی تھی کہ اسے کیمیائی ہتھیار مہیا کیے جائیں۔ تب پینٹاگون شروع میں اگرچہ کافی حد تک آمادہ بھی ہو گیا تھا تاہم بعد میں امریکا نے یہ درخواست مسترد کر دی تھی۔

اس دور میں متعدد بین الاقوامی معاہدوں کی وجہ سے وفاقی جمہوریہ جرمنی کو کیمیائی ہتھیار تیار کرنے، ان کے حصول، تنصیب یا انہیں استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

اس کا پس منظر یہ تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب منقسم جرمنی کے سوویت دستوں کے زیر قبضہ مشرقی حصے میں کمیونسٹ مشرقی جرمن ریاست قائم ہو گئی تھی، تو امریکا اور اتحادی طاقتوں کے زیر قبضہ مغربی جرمنی کو ایک وفاقی جمہوریہ بنایا ہی اس مقصد کے تحت گیا تھا کہ دوبارہ کبھی نوبت جنگ، آؤشوِٹس جیسے اذیتی کیمپوں اور کیمیائی ہتھیاروں تک نہیں پہنچنا چاہیے۔

لیکن پھر وفاقی جمہوریہ جرمنی کے قیام کے 20 سال سے بھی کم عرصے بعد جب اس دور کی مغربی جرمن حکومت نے نیٹو رہنماؤں کے ساتھ انتہائی خفیہ ملاقاتوں میں دوبارہ کیمیائی ہتھیاروں کے ممکنہ حصول سے متعلق بحث چھیڑی تو واشنگٹن حکومت نے یہ درخواست رد کر دی تھی۔

Geheimes deutsches C-Waffenprogramm in den 60-er Jahren
اعصابی گیس ایجنٹ وی ایکس کے ممکنہ استعمال سے ہونے والے نقصانات کا ایک خاکہتصویر: Bundesarchiv Freiburg

تب اس دور کی وفاقی جرمن فوج کے انسپکٹر جنرل فریڈرش فؤرچ نے کہا تھا، ’’اگر سوویت یونین نے اچانک حملہ کر دیا، تو نیٹو کا خیال یہ ہے کہ وارسا معاہدے میں شامل ممالک کے راستے کیمیائی ہتھیاروں سے ایک فوری جوابی حملہ لازمی ہو گا۔ لیکن کیمیائی ہتھیاروں کے حصول اور تنصیب کے بغیر ہمارے پاس ایسا کچھ کرنے کے لیے عسکری وسائل موجود ہی نہیں ہیں۔‘‘

انہی عسکری دستاویزات کے مطابق 1963ء میں اس دور کے مغربی جرمن وزیر دفاع کائی اُووے فان ہاسے نے بھی خفیہ طور پر واشنگٹن سے کہا تھا کہ جرمنی کو کیمیائی ہتھیار فراہم کیے جانا چاہییں۔ ان تاریخی کاغذات میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ تب فیڈرل جرمن آرمی نے کہا تھا کہ اگر جنگ چھڑ گئی، تو امریکا کو جرمنی کو قریب 14 ہزار ٹن کیمیائی ہتھیار مہیا کرنا چاہییں۔

انہی دستاویزات میں سے ایک اس بارے میں بھی ہے کہ آہنی پردے کے آر پار کے فریقین کے مابین اگر جنگ چھڑ جاتی تو کیمیائی ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کی صورت میں فضا سے پھینکے جانے والے ایسے زہریلے ہتھیاروں سے ہوا کی رفتار اور ہوائی جہازوں کی بلندی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کتنے علاقے کو نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔

ان تازہ انکشافات کے بعد برلن میں وفاقی وزارت دفاع سے جب جمعرات تین مئی کے روز جرمنی میں کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں اس کا موقف دریافت کیا گیا، تو ایک ترجمان نے بتایا، ’’جرمن سرزمین پر جرمن فوج کے پاس یا جرمنی کے نیٹو اتحادیوں کے پاس کوئی ایک بھی کیمیائی ہتھیار موجود نہیں ہے۔‘‘