’جرمنی بدر کیے جانے والے افغان شہریوں پر جرمن پولیس کا تشدد‘
9 مئی 2019یہ بات 15 اگست 2018ء کی ہے، جب جرمن صوبے باویریا کے دارالحکومت میونخ سے ایک چارٹر جہاز کے ذریعے 46 افغان شہریوں کوکابل بھجیا جا رہا تھا۔ ان تمام افغانوں کی سیاسی پناہ کی درخواستیں رد کی جا چکی تھیں۔ اس موقع پر ان مہاجرین کی نگرانی کے لیے تقریباً ایک سو پولیس اہلکار جہاز پر موجود تھے جبکہ ملک بدری کے اس عمل کا جائزہ لینے کے لیے یوریی یونین کے انسداد تشدد کی کونسل کے تین ارکان بھی کابل تک کا سفر کر رہے تھے۔
بظاہر اس پورے عمل کی تیاری بہت ہی پیشہ ورانہ انداز میں کی گئی تھی، جس پر اس کمیٹی نے جرمن حکام کی تعریف بھی کی تاہم ساتھ ہی انہوں نے ایک نامناسب رویے کی جانب حکام کی توجہ بھی مبذول کرائی۔
’سی پی ٹی‘ نامی اس کونسل کے ارکان نے بتایا کہ جرمنی کے مختلف صوبوں سے ان افغان شہریوں کو میونخ لایا گیا تھا۔ میونخ تک کے سفر اور جہاز میں سوار ہونے کے دوران زیادہ تر افغان شہریوں کا رویہ انتہائی پرسکون تھا اور انہوں نے تمام تر احکامات پر خاموشی کے ساتھ عمل کیا۔
رپورٹ کے مطابق تاہم صرف دو افغان شہریوں نے شدید مزاحمت کی۔ ان کے ہاتھ اور پیر ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور انہیں کئی پولیس اہلکاروں نے زبردستی جہاز میں سوار کرایا تھا۔ ایک افغان مہاجر نے تو جہاز میں بھی اپنی مزاحمت جاری رکھی اور اپنا سر سیٹ پر مارا۔ اس موقع پر ایک اہلکار نے اپنے بازو کے ذریعے پوری طرح سے ٹیپ میں جکڑے ہوئے اس افغان شہری کے گلے کو دبایا، جس کی وجہ سے اس کی سانس رکنے لگی۔ جبکہ ایک اور اہلکار نے متعدد مرتبہ اس شخص کے عضو تناسل کو شدید انداز میں دبایا۔
اس رپورٹ میں ماہرین نے تنقید کی ہے کہ واضح طور پر یہ طریقہ شدید تکلیف پہنچانے کے لیے اختیار کیا گیا تھا، ’’یہ طریقہ ’غیر معقول اور انتہائی نامناسب‘ ہے اور جرمنی کو چاہیے کہ وہ اس کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کرے۔‘‘ جواب میں جرمن وزارت انصاف نے کہا ہے کہ انہوں نے اس بارے میں پولیس سے رابطہ کیا ہے اور ان تک یہ تجاویز پہنچا دی ہیں۔
’سی پی ٹی‘ کی رپورٹ میں یہ تنقید بھی کی گئی ہے کہ جرمن حکام سیاسی پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو آخری لمحات میں ہی ان کی ملک بدری کی خبر سناتے ہیں،’’ اگر ان افراد کو مناسب وقت پر یہ بتا دیا جائے کہ انہیں جرمنی سے نکالا جا رہا ہے تو نفسیاتی طور پر حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے انہیں تیار ہونے کا وقت مل جائے گا۔‘‘