جرمن کمپنی سیمنز کا ایٹمی توانائی کو الوداع کہنے کا فیصلہ
18 ستمبر 2011یہ بات Siemens گروپ کے سربراہ پیٹر لوئشر نے جرمن ہفت روزہ جریدے ڈئر اشپیگل Der Spiegel کے آج اتوار کو شائع ہونے والے تازہ شمارے میں اپنے ایک انٹرویو میں بتائی۔
سیمنز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر پیٹر لوئشر نے اس انٹرویو میں کہا کہ ان کا ادارہ آئندہ کسی بھی طرح کے نیو کلیئر پاور پلانٹس کی تیاری ، ان میں سرمایہ کاری یا ان سے متعلق انتظامی عمل میں شامل نہیں ہو گا۔ Peter Loescher نے کہا، ’ہمارے لیے اب یہ باب بند ہو گیا ہے۔‘
انہوں نے دنیا کے بہت بڑے بڑے صنعتی گروپوں میں شمار ہونے والی اس کمپنی کی پیداواری اور کاروباری پالیسی میں اس تبدیلی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سیمنز جوہری توانائی کے شعبے میں اپنی جملہ مصروفیات اس لیے ترک کر دے گی کہ خاص طور پر توانائی کے شعبے میں دوہرے استعمال والی ٹیکنالوجی کی ترویج و ترقی پر زیادہ توجہ دی جا سکے۔
پیٹر لوئشر نے آج شائع ہونے والے اپنے انٹرویو میں کہا کہ سیمنز کی طرف سے آج سے مختلف کمپنیوں اور اداروں کو صرف اسٹیم ٹربائن جیسی روایتی صنعتی مصنوعات ہی مہیا کی جائیں گی۔ ان کے بقول اس کا مطلب یہ ہو گا کہ صرف ایسی مصنوعات کی تیاری اور فراہمی جو صرف جوہری توانائی کی تنصیبات میں ہی استعمال نہ ہو سکیں بلکہ جنہیں گیس اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں جیسی تنصیبات میں بھی استعمال میں لایا جا سکے۔
سیمنز کے اس فیصلے سے قبل وفاقی جرمن حکومت نے بھی اسی سال مارچ میں جاپان میں فوکوشیما کے ایٹمی بجلی گھر میں پیش آنے والے تباہ کن حادثے کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ جرمنی میں کام کرنے والے تمام ایٹمی بجلی گھر زیادہ سے زیادہ سن 2022 تک بند کر دیے جائیں گے۔ ایٹمی توانائی کا استعمال ترک کرنے سے متعلق اس فیصلے کے بعد اب تک پارلیمانی سطح پر باقاعدہ قوانین بھی منظور ہو چکے ہیں۔
یورپ کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک اور دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شمار ہونے والا جرمنی عالمی سطح پر صنعتی طور پر ترقی یافتہ سات بڑی ریاستوں میں سے وہ پہلی ریاست ہے، جس نے ماضی میں چرنوبل کے ایٹمی حادثے اور اس سال فوکوشیما کے سانحے سے سبق سیکھتے ہوئے ایٹمی توانائی کے استعمال کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: شامل شمس