جرمن وزير خارجہ، ليبيا کی جنگ سے عليحدہ رہنے پر زير تنقيد
8 ستمبر 2011جرمنی ميں وزير خارجہ کوعام طور پر تمام ہی سياسی جماعتيں احترام کی نظر سے ديکھتی ہيں۔ ليکن اب مخلوط حکومت ميں شامل چھوٹی جماعت ايف ڈی پی سے تعلق رکھنے والے وزير خارجہ گيڈو ويسٹر ويلے کو احترام سے نہيں ديکھا جا رہا ہے۔ کل بدھ کو جرمنی کی وفاقی پارليمان ميں ہونے والی ايک بحث ميں اپوزيشن کی گرين پارٹی کے رکن فرتيوف شمٹ نے کہا کہ ويسٹر ويلے کی خارجہ پاليسی دنيا ميں جرمنی کی شہرت کو نقصان پہنچا رہی ہے: ’’ملک کے اندر اور باہر تبصروں سے يہ بالکل واضح ہے کہ جرمنی کی شہرت کو ڈرامائی طور پر نقصان پہنچ رہا ہے اور يہ ايک جرمن وزيرخارجہ کے ليے يکتا نوعيت کی بات ہے۔‘‘
اپوزيشن کی بڑی جماعت ايس پی ڈی کے رکن گيرنوٹ ايرلر نے کہا کہ ليبيا سے متعلق ويسٹر ويلے کی پاليسی نےجرمنی کے اتحاديوں امريکہ، برطانيہ اور فرانس کو اُس سے بدظن کر ديا ہے: ’’اپنے قابل اعتبار اور قابل اعتماد ہونے کو غير متوقع اور من مانے طرزعمل اور پيشگی اطلاع کے بغير جرمن خارجہ پاليسی کی تشکيل نو کے ذريعے داؤ پر لگايا جا سکتا ہے۔‘‘
خود ويسٹر ويلے کی پارٹی ايف ڈی پی کے چئير مين فلپ روئسلر نے پچھلے ہفتے يہ کہا کہ انہوں نے وزير خارجہ سے اصرار کيا تھا کہ وہ قذافی کی حکومت کے خاتمے ميں نيٹو کے کردار کی تعريف کريں۔
ويسٹر ويلے نے کل پارليمان ميں اپنی تقرير ميں بہت محتاط رہتے ہوئے ليبيا کے مسئلے کو دوبارہ چھيڑنے سے گريز کيا اور اس کے بجائے جرمن خارجہ پاليسی نکات کا حوالہ ديا اور کہا: ’’جرمن خارجہ پاليسی کی واضح بنياد يورپی يونين ہے اور جرمنی کی خارجہ سياست امن کی سياست ہے۔ يہ دونوں موجودہ وفاقی جرمن حکومت کی خارجہ پاليسی کی مستقل بنياديں ہيں۔‘‘
جرمنی کی اپوزيشن نے يہ اعتراف کيا کہ ليبيا سے متعلق بھی جرمن پاليسی جرمن حکومت کی ايک اجتماعی پاليسی ہے، ليکن اب اس سلسلے ميں ساری تنقيد اور الزامات تنہا وزير خارجہ ويسٹر ويلے کو برداشت کرنا پڑ رہے ہيں۔
جرمنی کے عوامی حلقوں ميں پچھلے کئی دنوں سے يہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ ويسٹر ويلے مزيد کب تک اپنے عہدے کو برقرار رکھ سکيں گے۔
رپورٹ: نينا ورک ہوئيزر / شہاب احمد صديقی
ادارت: امجد علی