1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن موسمیاتی تبدیلی کے مقابلے مہاجرت سے زیادہ خوف زدہ ہیں

9 مئی 2024

ڈنمارک کے ایک تھنک ٹینک کی تحقیقات کے مطابق یورپی اور بالخصوص جرمن عوام مہاجرت کے سلسلے کو جلد از جلد روکنے کے خواہش مند ہیں۔ اس کے برخلاف موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات سے نمٹنے پر ان کی توجہ کم ہے۔

https://p.dw.com/p/4fexA
یورپیئنز کی بڑھتی ہوئی تعداد کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کو امیگریشن کو کم کرنے پر زیادہ توجہ دینی چاہئے
یورپیئنز کی بڑھتی ہوئی تعداد کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کو امیگریشن کو کم کرنے پر زیادہ توجہ دینی چاہئےتصویر: picture-alliance/NurPhoto/N. Economou

بدھ کے روز شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق یورپ میں ایسے لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جن کا خیال ہے کہ مہاجرت کو کم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ اس طرح کی سوچ رکھنے والوں میں جرمنی سر فہرست ہے۔

جرمن پارلیمان میں ملک بدری کا عمل تیز کرنے کا بل منظور

یورپی یونین مہاجرت سے متعلق قوانین میں اصلاحات پر متفق

ڈنمارک میں قائم الائنس آف ڈیموکریسیز فاونڈیشن نامی تھنک ٹینک کے ذریعے کیے گئے سروے کے مطابق، انہیں ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ کو ترجیح دینے کی خواہش کم پائی گئی۔

جرمنوں کی تقریباً نصف تعداد کے لیے مہاجرت اولین ترجیح

سن 2022 کے بعد سے یورپیئنز کی بڑھتی ہوئی تعداد کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کو امیگریشن کو کم کرنے پر زیادہ توجہ دینی چاہئے، جو 20 فیصد سے کم کے مقابلے اب تقریباً ایک چوتھائی ہو چکی ہے۔

اس دوران موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پورے براعظم یورپ میں لوگوں کی فکرمندی میں کمی آئی ہے۔

تارکین وطن کی آمد: مزید تین ممالک کے ساتھ جرمن سرحدوں کی نگرانی شروع

جرمنی: مسترد شدہ پناہ کے متلاشی افراد کو جلدی واپس بھیجنے پر غور

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "سن 2024 میں پہلی مرتبہ بیشتر یورپیئنز موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے امیگریشن کو کم کرنے کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔"

رپورٹ کے مطابق، "یہ تبدیلی دیگر ملکوں کے مقابلے میں جرمنی میں کہیں زیادہ حیران کن ہے۔ جہاں کے لوگ یہ چاہتے ہیں ان کی حکومت مہاجرت کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کرے اور اسے دیگر تمام ترجیحات پر فوقیت دے۔ اور اب ایسے لوگوں کی تعداد موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کو ترجیح دینے والوں کے مقابلے میں تقریباً دو گنا زیادہ ہے۔"

سن 2022 میں تقریباً ایک چوتھائی جرمنوں نے مہاجرت کو اپنی بنیادی ترجیح قرار دیا تھا جو کہ سن 2024 کے سروے میں بڑھ کر 44 فیصد ہو گئی ہے۔ دو سال قبل تقریباً ایک تہائی جرمن موسمیاتی تبدیلیوں کے سلسلے میں سب سے زیادہ فکر مند تھے،جن کی تعداد کم ہو کر اب 25 فیصد سے نیچے آگئی ہے۔

یہ سروے 53 ملکوں میں کیا گیا، جن میں جمہوریت اور آمریت والی دونوں ہی طرح کے ممالک شامل ہیں اور جو دنیا کی 75 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس میں جمہوریت، حکومتی ترجیحات اور بین الاقوامی تعلقات کے متعلق رویوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں سے جڑی مہاجرت

جنگ سب سے بڑا خطرہ

رپورٹ کے مرتبین نے پایا کہ عالمی سطح پر سب سے بڑا خطرہ جنگ اور پرتشدد تنازعات ہیں۔ اس کے بعد غربت، بھوک اور پھر موسمیاتی تبدیلی کا نمبر ہے۔

جمہوری اور غیر جمہوری دونوں ہی طرح کی حکومت والی دنیا بھر کے ممالک کے تقریباً نصف لوگوں نے محسوس کیا کہ ان کی حکومت صرف لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کے مفادات کے لیے کام کررہی ہے۔ جرمنی نے اس حوالے سے بھی نمایا ں تبدیلی کا تجربہ کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ"پچھلے چار سالوں میں یہ تاثر لاطینی امریکہ میں سب سے زیادہ اور ایشیا میں سب سے کم رہا، جب کہ سن 2020 کے بعد سے یورپ، بالخصوص جرمنی میں اس تاثر میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔"

رپورٹ کے مطابق،"امریکہ، یورپ اور طویل جمہوری روایات کے حامل دیگر ملکوں میں جمہوریت کی حالت کے حوالے سے عدم اطمینان کی صورت حال بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔"

انسانوں کو غیر قانونی طور پر یورپ پہنچانے کا کاروبار کتنا بڑا ہے

جمہوریتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی

رپورٹ کے مطابق ویت نام اور چین ان ممالک میں شامل تھے، جنہیں ان کے شہریوں نے سب سے زیادہ جمہوری سمجھا۔

الائنس آف ڈیموکریسیز فاونڈیشن کے سربراہ فوگ راسموسن کا کہنا تھا کہ یہ اعدادو شمار"تمام جمہوری حکومتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی" ہے۔

نیٹو کے سابق سربراہ اور ڈنمارک کے سابق وزیر اعظم راسموسن نے کہا،"جمہوریت کے دفاع کا مطلب دنیا بھر میں آزادی کو آگے بڑھانا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے ملک کے ووٹروں کے خدشات پر بھی توجہ دی جائے۔"

انہوں نے کہا،"رجحان یہ ظاہر کرتا ہے کہ گلوبل ساؤتھ کو مطلق العنانیوں کے ہاتھوں کھونے کے خطرہ لاحق ہے۔ ہم چین سے لے کرروس اور ایران تک مطلق العنانی کے محور کا مشاہدہ کررہے ہیں۔"

ج ا /      (رچرڈ کونر)

(اس آرٹیکل کی تیاری میں جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کا مواد استعمال کیا گیاہے)