1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سائنسجرمنی

جرمن طبی سائنسدان روبرٹ کوخ کا افریقہ میں مبہم تحقیقی سلسلہ

17 اپریل 2022

نوبل انعام یافتہ سائنسدان روبرٹ کوخ نے افریقہ میں ٹی بی اور مرض النوم کا علاج کرنے کی کوششیں کی تھیں۔ انہوں نے افریقی مریضوں کے اپنے کیمپ کو ’اذیتی مرکز‘ قرار دیا تھا۔ ان کے طریقہ علاج پر بحث کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/498DQ
Robert Koch  Mediziner Bakteriologe
تصویر: picture-alliance/akg-images

انیسویں صدی کے عظیم ترین طبی سائنسدانوں میں شمار کیے جانے والے نوبل انعام یافتہ طبی ریسرچر رابرٹ کوخ کے نام پر ہی جرمنی کے وبائی امراض کی تحقیق کے مشہور ادارے کا نام رکھا گیا ہے۔

کووڈ انیس کی حالیہ وبا کے دوران سارے جرمنی میں مریضوں کی تعداد اور انفیکشن کی شرح کا مکمل ریکارڈ بھی رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ نے ہی درج کیا اور شائع کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

اس نامور سائنسدان کی افریقہ میں طبی سرگرمیوں پر ان کی رحلت کے ایک سو دس برس بعد بھی ناقدین بحث جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے افریقہ میں قیام کے دوران وہاں تپِ دِق (ٹی بی) اور مرض النوم یا سلیپنک سِکنیس جیسی بیماریوں کے مریضوں کا علاج جاری رکھا تھا۔

ان کی طبی کاوشوں پر تنقیدی بحث کے تناظر میں کئی افراد نے قومی ادارے کے نام کو تبدیل کرنے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔

Robert Koch Bakteriologe
رابرٹ کوخ کو میڈیسن کا نوبل انعام سن 1905 میں دیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

رابرٹ کوخ کا دفاع

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مشہور معالج رابرٹ کوخ نے جرمنی کی افریقی نوآبادیاتی ملک میں مریضوں کی شفایابی کا بظاہر سلسلہ جاری رکھا تھا۔ اس دوران انہوں نے اپنی میڈیکل ریسرچ کا عمل بھی جاری رکھا۔

ان کے ناقدین کا مطالبہ ہے کہ یہ ضروری ہے کہ کوخ کی ریسرچ پر فوکس کیا جائے اور اس کا مناسب تجزیہ ضروری ہے کیونکہ اس تحقیقی عمل میں 'منفی ہتھکنڈوں‘ کے مبینہ استعمال کے بارے میں بعض بنیادی معلومات دستیاب ہوئی ہیں۔

’غیر ویکسین شدہ افراد سے کرسمس پر ملاقاتیں نہیں کریں گے‘

طبی مؤرخ کرسٹوف گراڈ مان کا تعلق اوسلو یونیورسٹی سے ہے۔ گراڈ مان کا کہنا ہے کہ ضروری ہے کہ رابرٹ کوخ کی افریقی ریسرچ کے ناقدین غیر ضروری طوالت کے سلسلے کو اب ختم کریں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جرمن ڈاکٹر کی ریسرچ کو ان کے دور میں رکھ کر دیکھنا اہم ہے نا کہ سن 2022 میں جب طبی سائنس بہت زیادہ ترقی کر چکی ہے۔

رابرٹ کوخ نے سن 1882 میں تپِ دق جیسے موذی مرض کی بنیادی معلوماتی دریافت کی تھیں اور اسی دریافت کی وجہ سے سن 1905 میں انہیں طب یا میڈیسن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

رابرٹ کوخ کا 'سیاہ تحقیقی عمل‘

ہیمبرگ یونیورسٹی میں گلوبل ہسٹری کے پروفیسر یؤرگن سیمریر کا کہنا ہے کہ رابرٹ کوخ کو جرمن نوآبادیاتی انتظامیہ نے افریقی ملک میں مرض النوم پر تحقیق کرنے کے لیے بھیجا تھا۔

یہ امر اہم ہے کہ کسی بھی انسان میں سلیپنگ سِکنیس یا مرض النوم ایک نا دکھائی دینے والے یا خوردبینی پیراسائیٹ کی جسم میں افزائش سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ پیراسائیٹ وہاں کے مقامی کیڑے ٹیٹسی فلائی کے ذریعے منتقل ہوتا تھا۔

Bildergalerie: Denkmäler mit Corona-Maske
رابرٹ کوخ کا مجسمہ برلن کے بڑے ہسپتال شاریٹا کے باہر ایک چوک میں نصب ہےتصویر: picture-alliance/W. Rothermel

یہ سن 1900 کے دور کی بات ہے اور تب رابرٹ کوخ نے موجودہ تنزانیہ، ٹوگو اور کیمرون کے علاقوں میں گھوم پھر کر اس بیماری کا علاج تلاش کرنے کی اپنی تحقیقی کوششیں کی تھیں۔

ان علاقوں میں سفر کرنے کے دوران بے شمار مریضوں کا معائنہ کیا اور ان پر کئی ہیلتھ تجربات بھی کیے۔ انہوں نے اپنے مریضوں کو جس ایک کیمپ میں رکھا ہوا تھا اور اسے وہ خود 'کنسنٹریشن‘ کیمپ قرار دیتے تھے۔

ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ہیلتھ تجربات کے دوران مریضوں کو ملنے والی تکلیف اور اذیت، جو ان کی موت تک جاری رہتی تھی کا اعتراف خود کوخ نے بھی کیا تھا۔ ہیٹی نژاد امریکی میڈیکل مؤرخ ایڈنا بونہومی کا کہنا ہے کہ ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوخ براہِ راست افریقی باشندوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک روا رکھنے میں شریک تھے۔

رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کی ویب سائٹ

وبائی امراض پر تحقیق کا جرمن ادارہ سن 1891 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس وقت اس کا نام رائل پروشیئن انسٹیٹیوٹ برائے متعدی امراض تھا۔ اس کی سربراہی سن 1904 تک رابرٹ کوخ کے پاس رہی۔

ادارے کی ویب سائیٹ پر ایک کیمیکل دوا اٹوکسیل استعمال کرنے کی تصدیق ہوتی ہے۔ ناقدین کے مطابق رابرٹ کوخ کا سن 1906-07 کا مشرقی افریقہ کا تحقیقی دورہ ایک 'سیاہ باب‘ ہے۔

اس عرصے کے دوران جرمن ماہر نے اٹوکسیل کا استعمال مرض النوم کے مریضوں پر باقاعدگی سے کیا تھا۔ اس کیمیکل دوا دینے سے سلیپنگ سیکنیس نامی مرض کا جرثومہ یا پیراسائیٹ مریض کے خون میں کچھ دیر کے لیے سو جاتا تھا لیکن کچھ وقت کے بعد زیادہ شدت کے ساتھ پھر سرگرم ہو جاتا تھا۔

جرمنی: موسم سرما میں کووڈ 19 کے انفیکشن میں اضافے کی پیش گوئی

اس کیمیکل کے استعمال سے مریضوں کو جسم کا درد، انتڑیوں کی تکلیف اور کچھ کے نابینا ہونے کی بھی اطلاعات ملی ہیں۔ دوسری جانب رابرٹ کوخ سلیپنگ سِکنیس کے لیے اس وقت کی زیرِ استعمال دوا اٹوکسیل کے استعمال کے نتائج پر مطمئن تھے۔

اوسلو یونیورسٹی کے کرسٹوف گراڈ مان کا کہنا ہے کہ اُس وقت کوخ کو اٹوکسیل کے منفی اثرات کی آگاہی نہیں ہوئی تھی اور ان کے تمام تجربات نیک نیتی پر مبنی تھے لہذا آج کے دور کے مبینہ شکوک و شبہات کا اس دور کے تجربات سے کوئی تعلق یا نسبت دکھائی نہیں دیتی۔

مارٹینا شویکووِسکی (ع ح/ ک م)