1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن شہری اور کیوسک: ایک سدابہار تعلق

22 اکتوبر 2020

کہا جاتا ہے کہ کسی کیوسک (کارنر شاپ) میں سے ایک جرمن شخص کو تو باہر نکالا جا سکتا ہے لیکن کسی جرمن شہری کے اندر سے کیوسک کو نہيں نکالا جا سکتا۔ کیوسک کو معمول کی جرمن زندگی میں بہت اہم خیال کيا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3kIYl
Deutschland Kiosk in Dortmund
تصویر: Ina Fassbender/AFP/Getty Images

جرمنی ميں سیاحت ایک یادگار سفر ہو سکتا ہے۔ کسی ریستوران ميں بيٹھ کر وائن کا ایک گلاس یا کاک ٹیل بار ميں پُر لُطف ڈرنک میسر ہو، تو سیاحت کا مزہ دوبالا ہو سکتا ہے۔ پر لطف اشیاء کی دستیابی کے باوجود کسی جرمن شہری سے کیوسک کی ضرورت اور اہمیت پوچھ کر دیکھیں، تو معلوم ہو گا کہ یہ کیا ہے اور کس بلا کا نام ہے۔

کیوسک کا کسی گلی یا سڑک کے کنارے پر ہونا ضروری نہیں۔ یہ کسی گلی یا مصروف سڑک پر بنی فٹ باتھ کے ساتھ موجود بازار یا عمارتوں کے کسی سلسلے میں بھی ہو سکتا ہے اور بھرے بازار میں بھی۔ یہ شبینہ دکان بھی نہیں بلکہ ضرورت اور مقصدیت کے اعتبار سے اسے کسی حد تک 'کارنر شاپ‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔

کیوسک رات گئے تک کھلا رہتا ہے۔ عموماً اس پر سگریٹ اور مختلف اقسام کے ٹھنڈے مشروبات کے ساتھ بیئر اور شراب میسر ہوتی ہے۔ کیوسک پر اس کی قیمت ریستوران کی طرح زیادہ نہیں ہوتی۔ عام لوگ ایسی دکانوں پر بيٹھنے اور وقت گزارنے کو ايک ثقافتی سرگرمی بھی قرار دیتے ہیں۔

عموماً کیوسک صاف ستھرے بھی نہيں ہوتے۔ کیوسکس تمباکو نوشی کے ليے استعمال ہونے مراکز بھی ہو سکتے ہے اور اس باعث ان کے نزدیک سگریٹ کے دھوئيں کی شدید بُو محسوس ہوتی ہے۔ ايسی دکانوں پر بہت ساری دوسری اشیاء کے ساتھ تمباکو کی بنی مختلف مصنوعات بھی میسر ہوتی ہیں۔ کئی افراد پہلے پہل کیوسک کو راہ چلتے ہوئے بیئر لینے کی کوئی چھوٹی دکان خیال کرتے ہیں لیکن اس کی افادیت کے پردے آہستہ آہستہ اٹھتے ہیں۔

Deutschland Kiosk l Spätkauf in Berlin
تصویر: Maja Hitij/Getty Images

کیوسک ایک ٹھکانہ بھی

اچھا ڈرنک اور اچھی خوراک جرمن روایت میں شامل ہيں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جرمن وسیع تر معنوں میں داخلی لذت اور مسرت سے سرشار قرار نہیں دیے جا سکتے۔ کسی کیوسک کے نزدیک سیڑھیوں پر بیٹھ کر دوستوں اور رفیقوں کے ساتھ بیئر پکڑ کر گپ شپ کرنا بھی ایک پر لطف سرگرمی ہے۔ کسی کیوسک سے ٹی شرٹ یا یادگاری اشیاء کا دستیاب ہونا ممکن ہے۔ اس کے علاوہ دیر رات کو بھوک لگ گئی تو کسی نا کسی کیوسک سے سینڈوچ ملنا بھی ممکن ہے۔

Deutschland Experiment - Konzert unter Corona-Bedingungen
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt

کیوسک اصل میں 'اشپیٹی‘ ہے

کارنر شاپ یا شبینہ دکان یا کیوسک کا تصور نیا نہیں بلکہ چھ سات صدیوں پرانا ہے۔ قدیمی ایرانی تہذیب، برصغیر پاک و ہند اور عثمانی دور حکومت میں اس طرز کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ یہاں جرمنی میں بیسویں صدی کے دوسرے حصے میں يہ ابھريں۔ یہ بات دوسری عالمی جنگ کے بعد منقسم جرمنی کے حصے وفاقی جمہوریہ جرمنی (GDR) کی ہے، جب شہری بلدیاتی اداروں نے دیر سے کام ختم کرنے والے ملازمين کو کسی دکان پر بیٹھ کر ڈرنک یا بیئر پینے کی اجازت دی تھی۔ اُس وقت اس کا نام جرمن زبان میں 'اشپیٹ کاؤف‘ رکھا گیا، جس کا مطلب دیر سے خریداری کرنا تھا اور پھر بعد میں یہ مختصر ہو کر 'اشپیٹی‘ ہو کر رہ گیا۔ سابقہ کمیونسٹ جرمن حصے میں ان کیوسکس یا ایسی دکانوں کو زندگی بچانے والی دکانيں بھی قرار دیا گیا تھا۔

جرمنی میں تمام کاروباری اسٹورز اور مارکیٹیں اتوار کو پوری طرح بند ہوتی ہیں۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں قریب قریب سبھی دکانیں سہ پہر میں بند کر دی جاتی ہیں۔ ایسے میں شہر ہوں یا قصبے طلب گاروں کی طلب صرف کیوسک ہی پورا کرتے ہیں۔ آج کل ان دکانوں پر سگریٹ، بیئر اور شراب فروخت ہوتے ہیں۔ ویک اینڈز اور تعطیلات کے موقع پر ضروری سامان کی دستیابی کا واحد سہارا بھی یہی کیوسکس ہوتے ہیں۔ لیکن اب عام دن میں، معمول کے اوقات کے دوران بھی لوگ ان دکانوں پر پہنچ کر اپنی ضرورت کی اشیاء حاصل کرنا آسان خیال کرتے ہیں۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ کیوسکس جرمن شہریوں کے عام رویوں کا نشان ہے۔

ع ح / ع س (دانا راگيوو)