1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن اتحادی حکومت پھر تناؤ کا شکار

23 ستمبر 2018

چانسلرمیرکل کی جانب سے ملکی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ ماسن کو وزارت داخلہ میں اسٹیٹ سیکرٹری کےعہدے پر فائز کرنے کے فیصلے پر حکومتی اتحاد میں شدید اختلاف پایا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس مسئلے پر مزید مذاکرات کیے جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/35M0a
Berlin PK Merkel Seeehofer Nahles Neu
تصویر: picture-alliance/AP/M. Sohn

آج بروز اتوار حکومتی اتحادی جماعتوں کے سربراہوں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں ملکی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے  سربراہ ہانس گیورگ ماسن کے  وزارت داخلہ میں تبادلے پر مذاکرات کیے جائیں گے۔ گزشتہ ہفتے حکومتی اتحادی جماعتوں کے سربراہوں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ماسن وزارت داخلہ میں بطور اسٹیٹ سیکرٹری کام کریں گے۔ بعد ازاں حکومتی اتحادی جماعتوں نے چانسلر میرکل کے اس فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا تھا۔ 

جرمن انٹیلیجنس سربراہ ہانس گیورگ ماسن کو ہٹا دیا گیا

اس کے پیش نظر چانسلر میرکل نے جمعہ کے روز ایک بیان میں کہا کہ ’وہ اس فیصلے پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘ مخلوط حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ آندریا ناہلس نے جرمن اخبار ’بلڈ آم زونٹاگ‘ سے گفتگو میں اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ماسن کے تبادلے کے معاملے پر حکومتی اتحاد ختم نہیں ہوسکتا‘۔ دوسری جانب سی ایس یو سے تعلق رکھنے والے ملکی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے ہانس گیورگ ماسن کے وزارت داخلہ میں بطور اسٹیٹ سیکرٹری کام کرنے کی حمایت کی ہے۔

Hans-Georg Maaßen und Horst Seehofer
تصویر: Imago/C. Mang

 جرمن حکومتی اتحاد میں چانسلر میرکل کے اس فیصلے کو ماسن کے عہدے میں ترقی سمجھا جا رہا ہے کیونکہ  ماضی قریب میں جرمن اتحادی حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا مطالبہ تھا کہ ماسن کو کیمنٹس میں ہونے والے پر تشدد واقعات کے حوالے سے ان کے متنازعہ بیان پر داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ  عہدے سے ہٹایا جائے۔

ماسن پر اے ایف ڈی کو خفیہ نوعیت کا ڈیٹا فراہم کرنے کا الزام

قبل ازیں داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ ہانس گیورگ ماسن نے جرمن روزنامہ بلڈ سے گفتگو میں کہا تھا، ’’میں ایسی میڈیا رپورٹوں پر شک رکھتا ہوں کہ کیمنٹس میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے (غیرملکیوں) کا تعاقب کیا۔‘‘ جبکہ چانسلر میرکل نے اس ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے ’ہدف بنا کر ہراساں کرنے‘ کا عمل قرار دیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ جرمنی میں اس طرح کی نفرت قابل قبول نہیں ہے۔

ع آ/ ع ق (ڈی پی اے)