جاپان نے روس سے اپنا سفیر واپس بلوا لیا
2 نومبر 2010اس نئی کشیدگی کے بعد روسی حکام نے کہا ہے کہ وہ جاپان کی طرف سے اٹھائے گئے اس اقدام کے جواب میں فوری طور پر ٹوکیو میں تعینات روسی سفیر کو واپس نہیں بلائیں گے۔ ماسکو حکومت کے مطابق روسی صدر میدویدیف دیگر متنازعہ علاقوں کا دورہ بھی کریں گے۔
روسی صدردمتری میدویدف نے پیر کو متنازعہ جزائر کُریل کے ایک چھوٹے سے جزیرے کا پہلی مرتبہ دورہ کیا تھا، جو اس گروپ میں شامل تین دیگر جزائر کے ساتھ دوسری عالمی جنگ کے اواخرمیں روس نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔
بحرالکاہل کے سمندری علاقے میں واقع جنوبی کُریل کے جزائر پر قریب 65 برس پہلے تک جاپان کا قبضہ تھا۔ جاپان ان جزائر کو اپنے شمالی علاقے قرار دیتا ہے جبکہ روس کا دعویٰ ہے کہ یہ جزیرے اس کے ریاستی علاقے کا حصہ ہیں۔
روسی صدر کے ان جزائر میں سے ایک کے دورے کے بعد جاپانی وزیر خارجہ سیئجی مائہارا نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے اسے ’افسوناک‘ قرار دیا تھا۔ انہوں نے منگل کو کہا: ’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ماسکو سے جاپانی سفیر کو عارضی طور پر واپس بلا لیا جائے۔‘‘ تاہم جاپانی وزیر خارجہ نے یہ نہیں بتایا کہ واپس بلائے جانے والے سفیر کو کب واپس بھیجا جائے گا۔
اس سے قبل جاپانی حکام نے ٹوکیو میں تعینات روسی سفیرکو طلب کر کے صدر میدویدیف کے متنازعہ دورے کی تفصیلات بھی طلب کی تھیں۔
روسی صدر نے جاپانی زبان میں ’کوناشیر‘ اور روسی زبان میں ’کوناشیری‘ کہلانے والے کریل کے اس جزیرے کا چار گھنٹے کا قدرے مختصر دورہ کیا تھا، جس دوران انہوں نے متعدد سکیورٹی چیک پوائنٹس کا جائزہ لینے کے علاوہ مقامی صحافیوں اور شہریوں سے گفتگو بھی کی تھی۔
صدر میدویدیف کے اس دورے پر روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے جاپانی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے جاپانی ردعمل کو ناقابل قبول قرار دیا تھا۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ جزائر روسی سرزمین کا حصہ ہیں اور روسی صدر نے جس علاقے کا دورہ کیا ہے، وہ وفاق روس ہی کا حصہ ہے۔
اس تازہ کشیدگی کے باوجود جاپانی حکومت نے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے رہنما اسی ماہ ہونے والے طے شدہ مذاکرات میں ضرور حصہ لیں گے۔ روسی صدر میدویدیف اور جاپانی وزیر اعظم ناؤتو کان کے درمیان تیرہ تا چودہ نومبر جاپان میں ہونے والے ایشیا بحرالکاہل اقتصادی تعاون کی تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر ایک باہمی ملاقات بھی طے ہے۔ جاپانی وزیر خارجہ کے بقول اس ملاقات میں کریل کے متنازعہ جزائر کے بارے میں بھی بات کی جائے گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ روسی صدر کے متنازعہ علاقوں کے دورے سے ماسکو حکومت نے ایک واضح پیغام دیا ہے کہ وہ قدرتی وسائل سے مالا مال ان جزائر کو چھوڑ دینے پر ہرگز تیار نہیں ہے۔ دوسری طرف جاپان میں وزیر اعظم کان کو اس مسئلے پر اختیار کی گئی اپنی جوابی حکمت عملی کے باعث سخت تنقید کا سامنا بھی ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک