1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جاپان: فوکوشیما کے دو سال بعد، ایک تبصرہ

8 مارچ 2013

فوکوشیما کے ایٹمی حادثے کے دو سال بعد بھی جاپان نے ایٹمی توانائی کو خیر باد کہنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار الیگزانڈر فروئنڈ کے مطابق ایسی توقع رکھنا بھی غیر حقیقت پسندی ہو گی۔

https://p.dw.com/p/17tQI
تصویر: dapd

دو سال پہلے جاپان میں آنے والی ہولناک ایٹمی تباہی کے بعد فوکوشیما کے وسیع تر علاقے آئندہ کئی عشروں تک رہائش کے قابل نہیں رہے۔ تباہی کا شکار ہونے والے ایٹمی بجلی گھروں کے منتظم ادارے ٹیپکو کو قومی تحویل میں لیا جا چکا ہے اور یوں نقصانات کا ازالہ اب جاپانی عوام کو کرنا پڑے گا۔ وہاں کے سیاستدان اور ایٹمی لابی اس سوال کا بھی جواب تلاش کر چکے ہیں کہ اس تباہی میں قصور کس کا تھا۔ و ہ کہتے ہیں کہ قصور ٹیکنالوجی کا نہیں بلکہ انسانوں کا تھا۔

16 مارچ 2011ء کی اس تصویر میں فوکوشیما کے ایک متاثرہ ری ایکٹر سے دھواں اٹھتا نظر آ رہا ہے
16 مارچ 2011ء کی اس تصویر میں فوکوشیما کے ایک متاثرہ ری ایکٹر سے دھواں اٹھتا نظر آ رہا ہےتصویر: AP/Kyodo News

گویا ٹیکنالوجی میں کوئی خرابی نہیں تھی بلکہ انسانوں نے ہی مقرر کردہ ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غلط رد عمل ظاہر کیا۔ وہاں جوہری توانائی کے حامیوں کی دلیل یہ ہے کہ اگر سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھ لیا جائے اور مقررہ ضوابط کا احترام کیا جائے تو آئندہ ایٹمی توانائی کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔ جاپانی حکومت کی بھی یہی سوچ ہے۔ چنانچہ نئی حکومت بھی، جو زیادہ تر پرانے سیاستدانوں پر ہی مشتمل ہے، ایٹمی توانائی کو خیر باد کہنے کی بجائے نہ صرف ایٹمی توانائی سے استفادہ جاری رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے بلکہ نئے ایٹمی ری ایکٹرز تعمیر کرنے کا بھی پروگرام بنایا گیا ہے۔

جرمنی میں بہت سے لوگوں کے لیے جاپانیوں کا یہ طرزِ عمل ناقابل فہم ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ شاید جاپانیوں نے اتنی بڑی تباہی سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ حقیقت لیکن یہ ہے کہ جاپانیوں نے فوکوشیما سے بلاشبہ بہت کچھ سیکھا ہے۔ اُنہیں اس تلخ حقیقت کا ادراک ہوا ہے کہ اگر اقتصادی مشکلات کا شکار جاپان اپنے بھرپور طاقت کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتے ہوئے ہمسایہ ملک چین کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا خواہاں ہے، تو پھر وہ ایٹمی توانائی سے دستبردار ہونے کا متحمل ہو ہی نہیں ہو سکتا۔

چین اپنے کئی دیگر ایشیائی ہمسایہ ملکوں کی طرح بدستور ایٹمی توانائی سے استفادے کی راہ پر گامزن ہے۔ جاپان کے ہاں خام مادوں کی کمی ہے اور اُسے توانائی کی درآمدات بہت مہنگی پڑ رہی ہیں۔ اُسے آسٹریلیا سے کوئلہ، امریکا سے گیس اور مشرقِ وُسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا سے تیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔ یہ مسئلہ بھی ہے کہ ابھرتی ہوئی سپر طاقت چین تجارت کے اہم راستوں کو بڑی آسانی سے بند بھی کر سکتی ہے۔ چین اور جاپان کے درمیان گزشتہ چند ماہ سے بڑھتے ہوئے دو طرفہ تنازعات کی روشنی میں دیکھا جائے تو جاپان کے یہ خدشات بے جا بھی نہیں ہیں۔ ان حالات میں جاپان کا ایٹمی توانائی سے استفادے پر ڈٹے رہنا اُس کا ترقی پر اندھا دھند اعتقاد نہیں ہے بلکہ اِس ملک کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔

2011ء کی تباہی کے فوراً بعد ایک متاثرہ ایٹمی ری ایکٹر میں ملبہ ہٹانے کے کام میں مصروف جاپانی ملازمین
2011ء کی تباہی کے فوراً بعد ایک متاثرہ ایٹمی ری ایکٹر میں ملبہ ہٹانے کے کام میں مصروف جاپانی ملازمینتصویر: Reuters/Kyodo

فروئنڈ لکھتے ہیں کہ ایسے میں جرمنی میں بھی ہمیں الزامات اور نصیحیتوں کے ضمن میں محتاط رہنا چاہیے۔ یہاں معاشرے کے تمام طبقات میں جوہری توانائی کو خیر باد کہنے پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے، پھر بھی ایٹمی توانائی کو چھوڑ کر توانائی کے متبادل ذرائع اختیار کرنے کا عمل کافی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔

توانائی کے معاملے میں جرمنی کی صورتحال کافی حد تک اطمینان بخش ہے۔ بجلی کی طلب بڑھ جانے کی صورت میں جرمنی اپنے ہمسایہ ملک فرانس یا پھر دیگر یورپی ممالک سے بھی ایٹمی بجلی خرید سکتا ہے۔ اس کے برعکس چاروں طرف سے سمندر میں گھرے ہوئے جاپان کو اس طرح ہمسایوں سے بجلی کے حصول کی بھی سہولت میسر نہیں ہے۔ جاپان میں توانائی کے متبادل ذرائع کو فروغ دینے میں بھی ابھی کئی سال لگ جائیں گے۔

جاپانی اس تلخ نتیجے پر بھی پہنچے ہیں کہ کئی عشروں سے صرف اور صرف ایٹمی تونائی پر انحصار کی جو پالیسی اختیار کی جاتی رہی ہے، اُسے اب آسانی سے بدلنا ممکن نہیں ہے۔ جاپان میں توانائی کے متبادل ذرائع کا نظام وضع کرنے کا عمل تقریباً 2040ء تک جا کر مکمل ہو سکے گا۔ وہ بھی اِسی صورت میں ممکن ہے کہ عوام سیاسی قیادت سے یہ بات منوائیں تاہم یہ عمل بھی صبر آزما ہو گا کیونکہ بہت سے جاپانیوں کو ملکی سیاست پر اب کوئی اعتماد نہیں رہا۔

A.Freund/aa/aba