1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جامعہ پنجاب، اساتذہ سراپا احتجاج تدریسی سرگرمیاں معطل

12 اپریل 2010

پاکستانی شہر لاہور میں واقع بر صغیر کی ممتاز دانشگاہ جامعہ پنجاب میں تدریسی سرگرمیاں معطل اور اساتذہ غیر معینہ مدت کیلئے ہڑتال پر ہیں۔ امتحانات ملتوی کر دئے گئے ہیں اور ہوسٹلوں کو خالی کرا لیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/Muet
تصویر: DW

پنجاب یونیورسٹی 128 سالہ علمی تاریخ رکھتی ہے اور جسے بر صغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں کی سب سے بڑی اور پرانی یونیورسٹی تصور کیا جاتا ہے ۔ اس جامعہ کی علمی و تحقیقی قدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس یو نیورسٹی کے تین اساتذہ کو نوبل پرائز مل چکا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی، سابق چیئرمین سینٹ وسیم سجاد، مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید ہاشمی، پیپلز پارٹی کے رہنما جہانگیر بدر کے علاوہ بہت سی اہم شخصیات نے اس مادر علمی سے فیض حاصل کیا ہے ۔ دنیا کا شائد ہی کوئی ایسا بڑا ملک ہو جہاں اس جامعہ کے فارغ التحصیل طلبا خدمات سر انجام نہ دے رہےہوں۔

آج کل یہ یونیورسٹی ایک ویرانے کا منظر پیش کر رہی ہے اور کیمپس میں طلبہ اور اساتذہ کی بجائے وہاں تعینات پولیس اہلکارنظر آتے ہیں۔ اساتذہ احتجاجی بینرز لئے شہر کی سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے کرنے میں مصروف ہیں ۔ ان کا مطالبہ ہے کہ یکم اپریل کو جامعہ پنجاب کی ڈسپلنری کمیٹی کے سر براہ پروفیسر افتخار بلوچ پر حملہ کرنے والے طلبا کو گرفتار کیا جائے۔ پروفیسر افتخار بلوچ نے مبینہ طور پر ایک طالب علم کو تشدد کا نشانہ بنانے والے اسلامی جمعیت طلبا کے چند کارکنوں کو یونیورسٹی سے نکال دیا تھا ۔ اس پر مشتعل طلبا نے اس فیصلے کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے پروفیسر افتخار بلوچ کو ان کے دفتر میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ اس واقعے کے بعد جامعہ پنجاب میں تدریسی سر گرمیاں معطل ہو کے رہ گئی ہیں اور اساتذہ، طلبہ اور والدین کی طرف سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔

Punjab University Lahore, Teacher Protesting
پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ پروفیسر پر تشدد کرنے والے طلبا کی گرفتاری کے لئے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔تصویر: DW

پیر کے روز فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز سٹاف ایسو سی ایشن کی اپیل پر پروفیسر افتخار بلوچ پر ہونے والے حملے کے خلاف ملک بھر کی جامعات میں یوم سیاہ منایا گیا۔ اساتذہ نے اپنے بازوں پر کالی پٹیاں باندھیں اور احتجاج کیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے وائس چانسلر جامعہ پنجاب ڈاکٹر مجاہد کامران کے ساتھ اس سلسلے میں ملاقات بھی کی۔

پروفیسر افتخار بلوچ پر حملے میں ملوث چار مرکزی ملزمان میں سے تین کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور چوتھے طالب علم کے والد کو بھی پولیس نےحراست میں لے رکھا ہے۔ ادھر اسلامی جعمیت طلبا پنجاب کے ناظم قیصر شریف نے بتایا کہ پچھلے چند سالوں میں یو نیورسٹی میں ایک سو سے زائد طلبا کو نکالا جا چکا ہے اور یہ پاکستان کی کسی بھی یو نیورسٹی سے نکالے جانے والے طلبا کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان کے مطابق نکالے جانے والے زیادہ تر طلبا پر کتاب میلہ منعقد کرنے ، ٹیلنٹ ایوارڈ کی تقریب کا انعقاد کرنے یا موسیقی کی مخلوط محفلوں کی مخالفت کرنے کے الزامات تھے۔

پنجاب یونیورسٹی کے سانحے میں زخمی ہونے والے پروفیسر افتخار بلوچ نے بتایا کہ جعمیت کے لڑکوں نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا تھا ان کے مطابق بعض غنڈہ عناصر نے اساتذہ کو دھمکانے اور طلبا پر تشدد کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ افتخار بلوچ کے مطابق پاکستان کی سرکاری یونیورسٹیوں میں غریبوں کے بچے پڑھتے ہیں اس لئے ان اداروں کو سیاسی عناصر سے پاک کرنا ضروری ہے۔

ادھر پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبا کے بعض والدین نے پیرنٹس ایسوسی ایشن کے نام سے ایک تنظیم قائم کر لی ہے ۔ اس ایسو سی ایشن کے صدر شیخ اظہر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی کے حالیہ واقعات کی تفصیلی عدالتی تحقیقات کروائی جانی چاہئے۔ ان کے بقول اساتذہ پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے خلاف بھی کاروائی کی جانی چاہیےجو بے گناہ طلبا کے مستقبل کو تاریک بنانے کا باعث بن رہے ہیں۔

یاد رہے پچھلے کچھ عرصے میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یو نیورسٹی بہاولپور میں بھی بد امنی کے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔

رپورٹ : تنویر شہزاد،لاہور

ادارت : افسر اعوان