1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافریقہ

تیگرائے تنازعہ، جو قرن افریقہ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے

22 اگست 2021

خیال کیا جاتا ہے کہ تیگرائے تنازعہ قرن افریقہ میں عدم استحکام پیدا کر سکتا ہے۔ ایتھوپیا میں یہ حالیہ فوجی آپریشن کا آغاز نومبر 2020 میں شروع ہوا تھا اور ابھی تک صورت حال کشیدہ ہے.

https://p.dw.com/p/3z7Li
Äthiopien | Jubel beim Einmarsch der TDF in Mekelle
تصویر: DW

افریقی ملک ایتھوپیا میں سنگین مسلح بحران شدید ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے متحارب فریقین میں ایک ادیس آبابا کی حکومت ہے اور اس کے اختیار کو ایک علاقے یا صوبے کے جنگجوؤں نے للکار رکھا ہے۔ یہ جنگجو تیگرائے سے تعلق رکھتے ہیں۔

 ایتھوپیا:  تیگرائی میں لاکھوں افراد قحط سالی کا شکار

ایسے خدشات ابھر رہے ہیں کہ تنازعہ ایتھوپیا کے ساتھ ساتھ اریٹیریا میں بھی حالات خراب کر سکتا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے اس مسلح تنازعے سے ایتھوپیا اور اریٹیریا کے ساتھ ساتھ  قرنِ افریقہ کا سارا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔

Äthiopien I Konfliktregion Tigray
تیگرائے جنگجوؤں کو ایتھوپیا کی جدید اسلحے سے لیس فوج کا سامنا ہےتصویر: Ethiopian News Agency/AP/picture alliance

ایتھوپیا کے بحران کے فریقین

تیگرائے کے تنازعے میں ایک فریق وزیر اعظم آبی احمد اور ان کی فوج ہے اور دوسرا فریق تیگرائے کے مسلح جنگجو ہیں۔ ان جنگوؤں کا تعلق تیگرائے عوامی محاذِ آزادی یا پیپلز لبریشن فرنٹ ہے۔ لبریش فرنٹ کی قیادت اور جنگجو ملکی وزیر اعظم آبی احمد کو اپنا کھلا دشمن قرار دیتے ہیں۔

سن 2018 سے قبل تیگرائے پیپلز لبریشن فرنٹ ملکی سیاست میں فعال کرادر ادا کرتا رہا۔ مبصرین کے مطابق لبریشن فرنٹ کی قیادت آمرانہ انداز میں اپنے معاملات جاری رکھے ہوئے ہے اور وہ مصالحت کی جانب جھکاؤ نہیں رکھتی اور نہ ہی تیار ہے۔

ایتھوپیا: تیگرائی رہنما کا وزیراعظم سے ’پاگل پن بند کرنے‘ پر زور

آبی احمد نسلی اعتبار سے ایتھوپیا کے قبیلے اورومو سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے منصبِ وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد تیگرائے پیپلز لبریشن فرنٹ کو پوری طرح مرکزی سیاسی دھارے سے باہر کر رکھا ہے۔

Tigray Konflikt | Äthiopien Eritrea Flüchtlinge
سوڈان میں پچاس ہزار تیگرائے مہاجرین پہنچے ہوئے ہیںتصویر: GIULIA PARAVICINI/REUTERS

لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی

 تیگرائے عوامی محاذ آزادی نامی تنظیم (ٹی پی ایل ایف) کے رہنما گیبرے مائیکل یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ان کی ایتھوپیا کی فوج کے خلاف لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی اور ان کے جنگجو ایتھوپیا کی فوج کے خلاف لڑتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لڑائی تب تک جاری رہے گی، جب تک تیگرائے کے علاقے میں زبردستی کے قابض موجود رہیں گے۔ ایتھوپیا کے وزیر اعظم آبی احمد تو ابتدائی لڑائی کے بعد ہی اعلان کر چکے ہیں کہ ملک میں پیدا خونریز تنازعہ اب ختم ہو گیا ہے۔

تیگرائی فورسز کا ایتھوپیائی طیارہ مار گرانے اور شہر واپس لینے کا دعوی

ایتھوپیا کے ہمسایہ ممالک کا ردعمل

تیگرائے تنازعے سے ہارن آف افریقہ یا قرن افریقہ کے سبھی ممالک میں گھبراہٹ پیدا ہو چکی ہے۔ اریٹیریا کی حکومت تو ادیس آبابا کی کھلی حامی ہے۔ ان کی دوستی کی بڑی وجہ ان ممالک کا سن 2000 سے التوا کے شکار ایک خونی تنازئے کو خوش اسلوبی سے حل کرنا خیال کیا جاتا ہے۔

سوڈان میں پچاس ہزار تیگرائے مہاجرین پہنچے ہوئے ہیں اور اس باعث ایتھوپیا اور سوڈان میں بھی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اس تنازعے نے گرینڈ ایتھوپین رینائےساں ڈیم کے انتہائی بڑے پروجیکٹ کو بھی تاخیر کا شکار کر دیا ہے۔ اس ڈیم کے حوالے سے سوڈان اور مصر کو بھی شدید تحفظات لاحق ہیں۔

Äthiopien Gondar | Amhara Miliz
تیگرائے تنازعے سے ہارن آف افریقہ یا قرن افریقہ کے سبھی ممالک میں گھبراہٹ پیدا ہو چکی ہےتصویر: Eduardo Soteras/AFP

تیگرائے میں تنازعہ اور غربت

فوڈ سکیورٹی کی ایک تنظیم آئی پی سی اپنی ایک رپورٹ میں واضح کر چکی ہے کہ تیگرائے میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ لوگ خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس تنظیم کے مطابق تقریبا ًسوا تین لاکھ افراد میں غذائی قلت کی سطح بحران کی حد تک پہنچ گئی ہے جبکہ سوا دو لاکھ کے قریب افراد ہنگامی صورت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

تیگرائی کے علاقائی دارالحکومت پر قبضہ کر لیا ہے، ایتھوپیا

اس رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ بحرانی حالات کی وجہ سے آبادی کی نقل مکانی، نقل و حرکت پر پابندیاں، محدود انسانی رسائی، فصل اور روزگار کے مواقع کا ختم ہونے جیسے عوامل شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اگر تنازعہ مزید شدت اختیار کرتا ہے یا کسی اور وجہ سے انسانی امداد میں رکاوٹیں آتی ہیں تو تیگرائے کے بیشتر علاقوں میں سنگین قحط کا خطرہ پیدا ہونے کا امکان ہے۔

مارٹینا شویکووسکی (ع ح / ا ا)