1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس میں معتدل اسلام پسندوں کی جیت کا اعلان

28 اکتوبر 2011

شمالی افریقی ملک تیونس کے تاریخی انتخابات کے عبوری نتائج کا اعلان کر دیا گیا ہے، جن کے مطابق معتدل اسلام پسند جماعت النہضہ نے نمایاں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/130Ui
تصویر: picture-alliance/dpa

تیونس ہی عرب اسپرنگ یا عرب بہار کا پہلا میزبان ملک ہے، جہاں عشروں سے حکمرانی کرنے والے زین العابدین بن علی کو عوامی احتجاج کے باعث اقتدار چھوڑ کر فرار ہونا پڑا تھا۔ ان کے دور میں کالعدم رہنے والی جماعت النہضہ نے انتخابات میں 41 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ 217 رکنی ایوان میں النہضہ نے 90 نشتیں جیت لی ہیں اور اب اسے عبوری حکومت کی تشکیل، صدر کی تعیناتی اور نئے آئین کی تشکیل میں اہم کر دار حاصل ہوگیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے سربراہ کامل جندوبی Kamel Jendoubi نے نتائج کا اعلان کیا، جن کے مطابق بائیں بازو کی دو جماعتیں بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہیں۔ ’المؤتمر من أجل الجمهورية‘ یا بائیں بازو کی جمہوری جماعت نے 14 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ اس طرح اس جماعت کو 30 اور ’التكتل الديمقراطي من أجل العمل والحريات‘ یعنی جمہوری لیبر جماعت برائے آزادی نے 10 فیصد ووٹوں کے حساب سے 21 نشتیں حاصل کیں۔

Tunesien Wahlen Stimmenzählung
انتخابی عمل کا ایک منظرتصویر: AP/dapd

کامیاب ترین جماعت النہضہ نے رواں سال مارچ میں ایک سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن کمیشن میں اپنا اندراج کرایا تھا۔ اس جماعت کی قیادت نے گزشتہ روز ہی کامیابی کے دعوے کرتے ہوئے حکومت کی تشکیل کے لیے رابطے شروع کر دیے تھے۔ النہضہ نے اپنے دوسرے اعلیٰ ترین قائد حامدی جیبالی کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہے۔ جماعت کے قائد راشد الغنوشی کا کہنا ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر عبوری حکومت تشکیل دے دیں گے۔

روایتی عرب معاشروں کے مقابلے میں قدرے روشن خیال تصور کیے جانے والے ملک تیونس میں النہضہ کی کامیابی سے بعض حلقوں میں خدشات بھی ابھرے ہیں۔ اس ضمن میں بالخصوص خواتین کے حقوق کو خطرے میں گِھرا دیکھا جا رہا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مخلوط حکومت میں اکثریت رکھنے کے باوجود النہضہ کے لیے خاصا مشکل ہوگا کہ وہ تیونس کی پارلیمان سے کٹر قوانین منظور کرواسکے۔ اس سلسلے میں بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد کی اہمیت اجاگر کی جاتی ہے۔

Tunesien Wahlen Flash-Galerie
تیونس کی ایک خاتون سکیورٹی اہلکار دارالحکومت میں فرائض منصبی کی ادائیگی کے موقع پرتصویر: DW

حکومت کی تشکیل کے لیے لیفٹسٹ پارٹی کانگریس فار دی پبلک بھی النہضہ سے رابطے میں ہے۔ اس جماعت کے رہنما منصف مارزوکی Moncef Marzouki کا کہنا ہے کہ النہضہ کو تیونس کے طالبان نہ سمجھا جائے بلکہ یہ متعدل اسلامی نظریات کے حامل ہیں۔

انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد سیدی بوزید نامی قصبے میں احتجاجی مظاہروں کی بھی اطلاعات موصول ہوئیں۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں سے زین العابدین بن علی کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا تھا۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں