1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس میں آئینی ریفرنڈم، طاقت ایک شخص کے ہاتھ میں؟

25 جولائی 2022

تیونس میں متنازعہ آئینی ریفرنڈم کے لیے پیر کو ووٹنگ جاری ہے۔ ناقدین کے مطابق اس طرح ملک میں برسوں سے جاری جمہوری جدو جہد کی واپسی کا سفر شروع ہو جائے گا اور طاقت سمٹ کر صدر قیس سعید کے ہاتھوں میں آ جائے گی۔

https://p.dw.com/p/4EcDe
Tunesien | Proteste gegen das Referendum von Präsident Kais Saied über eine neue Verfassung
تصویر: Zoubeir Souissi/REUTERS

سن 2011ء میں ''عرب بہار‘‘ کے احتجاجی مظاہروں کے بعد تیونس وہ واحد ملک تھا، جہاں جمہوری نظام لانے کے لیے کوششیں کامیاب ہوئیں اور ایک منتخب حکومت نے اقتدار سنبھالا۔ اس ملک کے لیے یہ ایک کھٹن سفر تھا لیکن پھر آج سے تقریباﹰ ایک برس قبل ملکی صدر قیس سعید نے حکومت کو برطرف کرتے ہوئے پارلیمان کو منجمد کر دیا اور طاقت کو اپنے عہدے تک محدود کردیا۔ ناقدین اسے ''جمہوریت کے خلاف بغاوت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔  

تاہم ان کے اس اقدام کا بہت سے تیونسی باشندوں نے خیرمقدم کیا تھا، جو ایک گھمبیر معاشی بحران سے تھکے ہوئے تھے۔ ان باشندوں کا کہنا تھا کہ آمر زین العابدین بن علی کی معزولی کے بعد اس نئے جمہوری نظام سے بھی ان کی زندگیوں میں بہت کم بہتری آئی ہے۔

ریفرنڈم صدر قیس سعید کے لیے امتحان

توقع یہی ہے کہ پیر کے روز مجوزہ آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالے جائیں گے لیکن ٹرن آؤٹ کو صدر قیس سعید کی مقبولیت کے امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کیوں کہ ایک سال کی سخت ''ون مین حکمرانی‘‘ کے بعد بھی اس شمالی افریقی ملک کی معاشی پریشانیوں میں کوئی بڑی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔

ووٹنگ شروع ہونے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر سعید کا کہنا تھا کہ تیونس کے باشندوں کو ''تاریخی انتخاب‘‘ کا سامنا ہے، ''ہم ایک ساتھ مل کر حقیقی آزادی، انصاف اور قومی وقار پر مبنی ایک نئی جمہوریہ قائم کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کسی ثبوت کے بغیر نامعلوم حریفوں پر یہ الزام عائد کیا کہ ووٹ نہ ڈالنے کے لیے لوگوں میں رقوم تقسیم کی گئی ہیں۔

Tunesien | Proteste gegen das Referendum von Präsident Kais Saied über eine neue Verfassung
تیونس کی اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی کے گروپوں نے اس ریفرنڈم کے بائیکاٹ کا مطالبہ کر رکھا ہےتصویر: Zoubeir Souissi/REUTERS

تیونس کے 12 ملین افراد میں سے تقریباً 9.3 ملین افراد اس ریفرنڈم میں حصہ لینے کے اہل ہیں۔ ان میں وہ ساڑھے تین لاکھ افرد بھی شامل ہیں، جو بیرونی ممالک میں مقیم ہیں اور انہوں نے ہفتے کے روز ووٹ ڈالنے شروع کیے تھے۔

تجزیہ کار یوسف شریف کا کہنا ہے، ''جو سب سے بڑی چیز کسی کو نہیں معلوم وہ اس ریفرنڈم کا ٹرن آوٹ ہے۔ آیا یہ کم رہے گا یا بہت ہی کم۔‘‘ ان کے مطابق اس آئینی ریفرنڈم کے پاس ہونے کے لیے کسی کم از کم شرکت کا تعین نہیں کیا گیا اور نہ ہی ''نہیں‘‘ کے نتیجے میں کوئی دوسرا آپشن رکھا گیا ہے۔

آمریت کی طرف واپسی کا سفر؟

صدر سعید کے ناقدین  کا کہنا ہے کہ اس طرح ملک کو واپس آمریت کی طرف دھیکلا جا رہا ہے۔ تیونس کی اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی کے گروپوں نے اس ریفرنڈم کے بائیکاٹ کا مطالبہ کر رکھا ہے جبکہ ملک کی طاقتور ٹریڈ یونین 'یو جی ٹی ٹی‘ نے اس حوالے سے کوئی بھی موقف اختیار کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

صدر سعید کا چارٹر سن 2014ء کے اس آئین کی جگہ لے گا، جو تین سال کے سیاسی انتشار کے بعد اسلام پسند سیاسی جماعتوں اور سیکولر قوتوں کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد طے پایا تھا۔

صدر سعید کے حامی برسوں کے سیاسی بحران اور بدعنوانی کا ذمہ دار 'ہائبرڈ پارلیمانی صدارتی نظام‘ اور اسلام سے متاثر النہضہ پارٹی کو ٹھہراتے ہیں۔ دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ نئے نظام میں بہت سارے اختیارات صدر کے ہاتھ میں چلے جائیں گے اور پہلے ہی پارلیمان سے زیادہ طاقتور صدر مزید طاقتور ہو جائیں گے۔

ا ا / ش ر ( روئٹرز، ڈی پی اے)