1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تھیلیسیمیا کی روک تھام کا عالمی دن

رفعت سعید/ کراچی8 مئی 2014

تھیلیسیمیا اپنے نام کی طرح پیچیدہ خون کی ایک بیماری ہے۔ 8 مئی کو دنیا بھر میں تھیلیسیمیا کی روک تھام کا دن منایا جاتا ہے۔ اسی حوالے سے آج کراچی کے مختلف سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں تقاریب کا اہتمام کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1BvfB
تصویر: picture-alliance/Agencia Estado

سول ہسپتال کراچی میں تھلیسیمیا کے شکار بچوں کی دلجوئی کے لیے کیک کاٹا گیا اور رنگارنگ تقاریب سجائی گئیں۔ اس تقریب میں بچوں کے ہمراہ ان کے والدین کو بھی مدعو کیا گیا اور گنتی کے دنوں کی زندگی لے کر آنے والے بچوں کو تفریح بھرے لمحات فراہم کیے گئے، ساتھ ہی ساتھ شہر میں مختلف جگہوں پر تھلیسیمیا اسکریننگ ٹیسٹ کے کیمپ بھی بڑی تعداد میں لگائے گئے، تاہم اس موذی بیماری سے متاثرہ بچوں کو سال میں ایک دن نہیں بلکہ ہمہ وقت توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان بچوں کی زندگی کا دارومدار خون کی تبدیلی پر ہوتا ہے، انہیں ہر پندرہ دن بعد خون کی تبدیلی کی ضرورت پیش آتی ہے، یہ مرض والدین کے لیے کڑا امتحان تب بن جاتا ہے جب اُن کے بچے کا بلڈ گروپ نایاب ہو۔ ایسے میں ہر پندرہ دن بعد خون کا انتظام کرنا کوہ نور تلاش کرنے کے مترادف ہے۔

متاثرہ بچوں کے والدین نے بتایا کہ انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ خاندانی شادی ان کے جگر گوشے کو اس بیماری میں مبتلا کرسکتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اگر مناسب آگاہی ہوتی تو ضرور قبل از نکاح اسکریننگ ٹیسٹ کراتے، لیکن اب ساری توجہ بچوں کے علاج معالجے پر مرکوز ہے۔

Kind mit der Krankheit Thalassemia
تھیلسیمیا کے شکار بچوں کے خون میں ہیموگلوبین کی کمی ہوتی ہےتصویر: Afraa Mohamad

اگر تھیلسیمیا سے متاثرہ بچوں کو مقررہ وقت پر خون کی فراہمی یقینی نہ بنائی جائے تو ان بچوں کے خون میں موجود ہیموگلوبن تیزی سے کم ہونے لگتا ہے، تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کی پریشانی یہیں ختم نہیں ہوتی، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیزن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر شمسی کہتے ہیں کہ تھلیسیمیا کے شکار بچوں میں بار بار خون منتقل ہونے سے ان کے خون میں فولاد کی مقدار بڑھ جاتی ہے، اگر فولاد کی اس مقدار کو قابو نہ کیا جائے تو بچوں کے اندرونی جسمانی اعضاء خراب ہونے کے خطرات ہوتے ہیں۔

طبی ماہرین بتاتے ہیں کہ تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے جو نسل در نسل پھیلتی ہے۔ معالجین کے نزدیک خون کی یہ بیماری خاندان میں ہونے والی شادیوں یعنی کزن میرج کی وجہ سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ تھلیسیمیا مائنر کی شادی اگر تھلیسیمیا مائنر سے کرادی جائے تو ہونیوالی اولاد کے تھیلیسیمیا میجر میں مبتلا ہونے کے امکانات 80 فیصد ہوتے ہیں۔ اس بیماری سے بچاؤ کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے احتیاط ۔ اگر شادی سے قبل جوڑے کی تھیلیسیمیا اسکریننگ کرالی جائے تو مستقبل کی نسلوں کو اس موذی مرض سے بچایا جاسکتا ہے۔

Flash-Galerie Liebesfilme
جبون ساتھی کا غلط انتخاب کبھی کبھی آئتندہ نسل کے لیے صحت کے سنگین مسائل کا سبب بن جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

صحت کی سہولیات ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ سندھ اسمبلی میں شادی سے قبل تھلیسیمیا ٹیسٹ کو لازمی قرار دینے کی قرارداد تاحال ایوان کی منظوری کی منتظر ہے تاہم یہ ایکٹ منظرعام پر آچکا ہے، اس ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے نہ تو نکاح نامے میں کوئی نئی شق شامل کی گئی ہے اور نہ ہی اس کے نفاز کے لیے کسی قسم کا اقدام دیکھنے میں آرہا ہے۔

عمیر ثناء فاؤنڈیشن کراچی میں تھلیسیمیا سینٹر چلارہی ہے اور یہ اس اعتبار سے مستند اور با اعتماد ادارہ ہے، عمیر ثناء فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر عبید ہاشمی کے مطابق ملک میں کل ایک لاکھ افراد اس مرض کا شکار ہیں۔ اس حساب سے یہ مرض پاکستان کے مستقبل کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ نہ تو اکیلی حکومت اس موذی مرض کا جڑ سے خاتمہ کرسکتی ہے اور نہ ہی عوام تن تنہا یہ کارپرخار انجام دے سکتے ہیں، صرف اور صرف مشترکہ کوششیں ہی اس مرض کے خلاف جنگ میں کارگر ثابت ہوسکتی ہیں۔