1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

توانائی بحران کے شکار پاکستان میں نئی توانائی پالیسی

تنویر شہزاد، لاہور6 اگست 2013

توانائی کے بحران سے دوچار پاکستان میں توانائی کی نئی قومی پالیسی پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔ اس پالیسی کے مطابق صنعتی اور تجارتی صارفین کے لیے بجلی کے نرخوں میں نمایاں اضافہ کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19KY0
تصویر: DW/D. Babar

اگرچہ پاکستان کی نئی حکومت کی طرف سے جاری کی جانے والی توانائی کی پانچ سالہ قومی پالیسی میں اگلے چار سالوں میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے، بجلی کی پیداوار میں نمایاں اضافے اور بجلی چوری روکنے کے حوالے سے کئی خوشنما اعلانات شامل ہیں لیکن توانائی کے امور پر نظر رکھنے والے بہت سے پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں ان اہداف کو حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔

پانچ سالہ قومی پالیسی میں بجلی چوری روکنے کے خوشنما اعلانات شامل ہیں
پانچ سالہ قومی پالیسی میں بجلی چوری روکنے کے خوشنما اعلانات شامل ہیںتصویر: Reuters

ٹیکسٹائل سیکٹر کی سب سے بڑی ایسوسی ایشن سے وابستہ ایک ماہر انیس احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کی قومی توانائی پالیسی پر نظرثانی کی شدید ضرورت ہے۔ ان کے بقول اس پالیسی میں بجلی کے نرخوں کو کم کرنے کی بات کی گئی تھی لیکن اس کے برعکس صنعتی صارفین کے لیے بجلی کے نرخ بڑھا کر پاکستان کی صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھا دی گئی ہے جس سے ان کی مصنوعات دوسرے ملکوں کی مصنوعات سے مقابلے کی سکت کھو دیں گی، ’’ہمارے خطے کے دیگر ملکوں میں بجلی کی اوسط قیمت آٹھ سے دس روپے فی یونٹ ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ قیمت پندرہ روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی ہے۔‘‘

انیس احمد کے مطابق حکومت کا نئی توانائی پالیسی میں یہ دعویٰ بھی نا قابل فہم ہے کہ حکومت بتدریج بجلی کی قیمتیں کم کر دے گی حالانکہ ایک مرتبہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے جو مہنگائی ہو جاتی ہے، اسے کب واپس لایا جا سکا ہے۔

پاکستان کے ایک بڑے انگریزی روزنامے کے لیے پچھلے پندرہ برسوں سے توانائی کے امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی احمد فراز نئی قومی پالیسی کے اہداف کے حاصل ہونے کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں ہیں۔ ان کے بقول پاکستان میں بجلی کی طلب کے سرکاری اعدادوشمار درست نہیں ہیں اور نئی پالیسی میں بھی بجلی کی دی ہوئی طلب کو اٹھارہ ہزار میگا واٹ تسلیم کرکے ساری پلاننگ کی جارہی ہے۔ ان کے بقول ایک تو سورج اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے لیے جن اربوں ڈالر مالیت کی رقوم کی ضرورت ہے ، وہ کہاں سے آئیں گی؟ اس کا ٹھوس جواب ابھی تک نہیں ملا۔ دوسرے اگر چند ہزارمیگا واٹ بجلی اگلے چار پانچ سالوں میں پیدا بھی کر لی گئی تو ممکنہ اقتصادی ترقی کے نتیجے میں بجلی کی طلب میں اضافے کے باعث لوڈ شیڈنگ کا سامنا پھر بھی رہے گا۔ احمد فراز کے بقول صورتحال یہ ہے کہ اس وقت بھی بجلی سے وابستہ کئی سرکاری کمپنیوں کو ایڈہاک ازم کی بنیاد پر قائم مقام سربراہان کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔

واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ توانائی کے شعبے کا سب سے بڑا مسئلہ محض بجلی کی قلت ہی نہیں بلکہ سستی بجلی کی قلت ہے۔ واپڈا کے انرجی مکس میں پانی سے بنائی جانے والی سستی بجلی کا شیئر ستر فی صد سے کم ہو کر تیس فی صد پر آ چکا ہے۔ آج بھی منگلہ اور تربیلہ میں پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت ایک روپے چون پیسے ہے جبکہ گیس سی بنائی جانے والی بجلی کی قیمت ساڑھے چھ روپے اور فرنس آئل سے بنائی جانے والی بجلی کی قیمت ساڑھے سولہ روپے فی یونٹ ہے۔

اگلے چند سالوں میں کوئلے، سورج کی روشنی اور بائیو ماس سے بجلی پیداکرنے کے منصوبے کامیابی سے مکمل کیے جا سکتے ہیں، مقصود بسرا
اگلے چند سالوں میں کوئلے، سورج کی روشنی اور بائیو ماس سے بجلی پیداکرنے کے منصوبے کامیابی سے مکمل کیے جا سکتے ہیں، مقصود بسراتصویر: DW/D. Babar

سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک کی رائے میں جب تک پانی سے بجلی بنانے کے منصوبوں کو ترجیح نہیں ملتی، بجلی کے نرخ نیچے لانا مشکل ہوگا، ’’ہم نے مفاہمت نہ ہونے کے نام پر بیس سال پہلے کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو ترک کیا تھا۔ اس کا متبادل تو کیا ملنا تھا بات اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ، کارخانوں کی بندش اور احتجاجی مظاہروں تک آن پہنچی ہے۔ اصل مسئلہ درست راستے کا انتخاب ہے جس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ باقی بجلی چوری روکنے سے کوئی بہت زیادہ فرق پڑنے کی امید نہیں ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بجلی پیدا کرنے والے ایک نجی ادارے اٹلس پاور کمپنی کے چیف ایگزیکٹوآفیسر مقصود بسرا نے پاکستان کی توانائی کی نئی قومی پالیسی کو سراہا اور کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے کوشش تو شروع کی ہے۔ ان کی رائے میں نجی شعبہ اس پالیسی کے اہداف کے حصول میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے تاہم بجلی پیدا کرنے کے بڑے منصوبوں کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کی مالی معاونت کی ضرورت ہو گی اور اس کے لیے حکومت کونہ صرف اقتصادی اعشاریے اور امن و امان کی صورت حال کو درست کرنا ہوگا بلکہ ’ساورن گارنٹی‘ کے حوالے سے بھی اپنی ساکھ کو بہتر بنانا ہو گا۔ مقصود بسرا کے بقول پاکستانی بینک وسائل کی کمی کی وجہ سے دو ہزار میگا واٹ تک کے منصوبوں کو ہی قرضہ فراہم کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق اگلے چند سالوں میں کوئلے، سورج کی روشنی اور بائیو ماس سے بجلی پیداکرنے کے منصوبے کامیابی سے مکمل کیے جا سکتے ہیں۔