1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تمل ناڈو:خواتین ورکرز کام کے دوران بیٹھ سکیں گی

جاوید اختر، نئی دہلی
12 اکتوبر 2021

تمل ناڈو بھارت کی ایسی دوسری ریاست بن گئی ہے جس نے دکانوں میں کام کرنے والی خواتین کو بیٹھنے کے حق سے متعلق قانون کی منظوری دے دی۔ جنوبی ریاست کیرالا نے سن 2018 میں اسی طرح کا قانون منظور کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/41YwK
Chikan Sticken Lucknow Indien Handarbeit
تصویر: Suhail Waheed

بھارت کی بالخصوص جنوبی ریاستوں کیرالا اور تمل ناڈو میں ملبوسات اور زیورات کی دکانوں پر عام طور پر خواتین سیلز ویمن کے طورپر کام کرتی ہیں۔ ان خواتین کو روزانہ کم از کم 10گھنٹے ڈیوٹی دینی پڑتی ہے اور ڈیوٹی کے دوران انہیں مسلسل کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ یہ خواتین شکایت کرتی ہیں کہ اتنی زیادہ دیر کھڑے ہونے سےان کے پیروں اور ایڑیوں میں درد اور بعض اوقات جکڑن پیدا ہوجاتی ہے۔ خواتین ورکرز اور ان کی تنظیمیں اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے ایک عرصے سے آواز اٹھاتی رہی ہیں۔

جنوبی ریاست تمل ناڈو نے گزشتہ ماہ ایک بل کی منظوری دی جس کی رو سے اب خواتین ورکرزڈیوٹی کے دوران کچھ دیر کے لیے بیٹھ سکیں گی۔ اب تک انہیں صرف 20منٹ کے لیے لنچ بریک دی جاتی تھی اورمحض چند سیکنڈ ٹیک لگانے کی اجازت تھی۔

خواتین کے لیے بڑی راحت

دکانوں میں کام کرنے والی خواتین ورکرز کو کام کے دوران بیٹھنے کا حق ملنے کو عورتوں کے لیے ایک بڑی راحت قرار دیا جارہا ہے۔ بالخصوص ان خواتین کے لیے جنہیں حاملہ ہونے کے باوجود مسلسل کھڑے رہنا پڑتا ہے۔

تمل ناڈو سے تعلق رکھنے والی اور ڈی ڈبلیو تمل سروس سے وابستہ صحافی اپرنا رامامورتی کا کہنا ہے کہ یہ قانون خواتین کے لیے ایک بڑی راحت ہے۔ا س سے انہیں کافی فائدہ ہوگا۔ اور اب عورتیں پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں ملازمت کے لیے آسکیں گی۔

بھارت: بارش کے لیے لڑکیوں کی برہنہ پریڈ

اپرنا رامامورتی کے مطابق یہ مسئلہ صرف بیٹھنے کی اجازت تک ہی محدود نہیں تھا۔ مسلسل کھڑے رہنے سے خواتین صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی متاثرہوتی تھیں۔ اور اس کی وجہ سے ان کی زندگی پر کافی برا اثر پڑتا تھا۔ یہ دراصل انسانی حقوق کا بھی مسئلہ تھا۔

Bildergalerie Weihnachtsgeschenke
تصویر: picture-alliance/dpa

انہوں نے مزید بتایا کہ خواتین کو دس دس بارہ بارہ گھنٹے تک کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ حتی کہ کھانے پینے کے لیے بھی بہت مختصر وقفہ دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں کئی طرح کی جسمانی بیماریاں لاحق ہوجاتی تھیں۔ ایسی متاثرہ خواتین کو اکثر پیروں میں درد کی شکایت رہتی ہے۔

پدرسری معاشرے کو مضبوط کرنے میں عورت کا کردار

گزشتہ 10برس سے کپڑے کی ایک دکان پر کام کرنے والی 40 سالہ لکشمی کہتی ہیں،اب تک کام کے دوران آرام کے لیے ہمیں صرف بیس منٹ لنچ بریک کے وقت ملتا تھا۔ ہم اپنے پیروں کو تھوڑا آرام دینے کے لیے شیلف کے سہارے چند منٹ کے لیے ٹیک لگالیتے تھے۔ وہ کہتی ہیں،اگر کوئی کسٹمر نہیں ہو تب بھی ہمیں فرش یا کرسی پر بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔

کھڑے ہوکر کام کرنے کا ضابطہ

بھارت میں بعض دکانوں اور ریٹیل اسٹورز میں کام کرنے والے ملازمین کو کھڑے ہوکر ہی کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا ضابطہ ہے جو یکساں طورپر تمام ملازمین پر نافذ ہوتا ہے۔

تمل ناڈو ورکنگ ویمنز کوارڈی نیشن کمیٹی کی کنوینر ایم دھن لکشمی کہتی ہیں، ''یہ ہمارا کافی دیرینہ مطالبہ تھا۔ خواتین کام پر جانے کے لیے جب بس پر سوار ہوتی ہیں اس کے بعد گھرلوٹنے تک انہیں تقریباً 12 سے 14 گھنٹے تک کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ انہیں بیٹھنے کے لیے بڑی مشکل سے موقع مل پاتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ صحت کے مسائل سے دوچار ہوتی ہیں اور انہیں مسلسل دباؤ میں کام کرنا پڑتا ہے۔'' ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو تنخواہیں بھی بہت کم ملتی ہیں۔

یہ مہم کیسے شروع ہوئی؟

پیشے سے درزی پی ویجی نے کیرل میں بیٹھنے کے حق کے لیے مہم شرو ع کی۔ انہوں نے ایک تنظیم بنائی، جس میں عام طورپر ایسے ملازمین  شامل ہیں جو غیر منظم سیکٹر مثلاً دکانوں وغیرہ میں معاون کے طورپر کام کرتے ہیں۔

ویجی بتاتی ہیں کہ چونکہ خواتین کو کام کے دوران بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی اس لیے انہوں نے اپنے سر پر کرسیاں رکھ کر مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا۔ آخر کار کیرالا کی حکومت کو خواتین کی پریشانیوں کا اندازہ ہوگیا او راس نے سن2018 میں ایک قانون منظور کیا۔ جس کے بعد اب دکانوں میں کام کرنے والی خواتین کو گاہکوں کی غیر موجودگی میں بیٹھنے کی اجازت مل گئی ہے۔

 بھارت: مسلمان ہندو عورتوں کو مہندی نہ لگائیں، کرانتی سینا کا حکم

پی ویجی، تمل ناڈو حکومت کی طرف سے بیٹھنے کا حق دینے کے فیصلے سے خوش ہیں۔ تاہم وہ کہتی ہیں، اصل امتحان اس کو نافذ کرنا ہے۔ اگر اسے نافذ نہیں کیا گیا تو پھر قانون بے معنی ہے۔

تمل ناڈو کے لیبر سیکرٹری آر کرلیش کمار کا کہنا تھا کہ انسپکٹر دکانوں پر جا کر دیکھیں گے کہ قانون پر عملدرآمد ہورہا ہے یا نہیں۔ ''ہم اس کے نفاذ کو یقینی بنائیں گے۔''

Vorbereitungen auf das Zuckerfest Eid al-fitr zum Ende des Ramadan 2014 in Kaschmir
تصویر: Reuters

منزل ابھی دور ہے

تمل ناڈو ورکنگ ویمنز کوارڈی نیشن کمیٹی کی کنوینر دھن لکشمی کا کہنا تھا،''بیٹھنے کے حق ان کے مطالبات میں سے ایک ہے جو پورا ہوا ہے لیکن ابھی کافی طویل سفر طے کرنا ہے۔ کم تنخواہ، رفع حاجت کے لیے جانے کی حد اور ان پر مسلسل نگرانی جیسے مسائل اب بھی برقرار ہیں۔'' دھن لکشمی کا کہنا تھا کہ گوکہ دکان مالکان دکانوں میں سی سی ٹی وی کیمروں کو نصب کیے جانے کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس سے چوری کو روکنے میں مدد ملتی ہے لیکن دراصل وہ اس کا استعمال ورکرز کی جاسوسی کرنے کے لیے کرتے ہیں۔

کیرالا میں مزدوروں کی یونین سی سی ٹی وی نگرانی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کررہی ہے۔ یونین کا کہنا ہے کہ اس کا استعمال ملازمین کے آپس میں بات کرنے یا کچھ وقت کے لیے اپنی جگہ سے اٹھ جانے پر سزا دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ سزا کے طورپر ان کی تنخواہیں کاٹ لی جاتی ہیں۔

بھارت میں عام شہریوں کا اوسط قد چھوٹا ہوتا جا رہا ہے

دھن لکشمی کو بہت زیادہ امید نہیں کہ تمل ناڈو میں بیٹھنے کے حق کا قانون منظور ہوجانے کے بعد بھی صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی آئے گی۔''مینیجر بہت سخت ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم ہر وقت اپنے ایک پاؤں پر کھڑے رہیں ۔اس لیے اگر کرسیاں آ بھی گئیں تب بھی ہم نہیں سمجھتے کہ کام کے دوران ہمیں بیٹھنے کی اجازت مل سکے گی۔''

جاوید اختر، ب ج

بھارتی خواتین کی کوڑے کرکٹ کے خلاف جنگ