1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تقریباﹰ 13 ہزار ’دہشت گرد‘ گرفتار کیے، چین

18 مارچ 2019

چین نے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے خلاف اپنے متنازعہ سکیورٹی کریک ڈاؤن کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ سن 2014ء کے بعد سے تقریباﹰ تیرہ ہزار ’دہشت گرد‘ گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3FEEg
China Uiguren feiern muslimischen Feiertag Eid al-Adha
تصویر: Getty Images/K. Frayer

سنکیانگ میں جاری حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے بیجنگ حکومت کو بین لاقوامی سطح پر دباؤ کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق وہاں ’حراستی کیمپوں‘ میں دس لاکھ سے زائد ایغور نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان شہریوں کو رکھا گیا ہے۔

پیر کے روز چین کی اسٹیٹ کونسل اور چینی کابینہ نے ایک مرتبہ پھر حکومتی پالیسیوں کا مکمل دفاع کرتے ہوئے کہا، ’’دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف سنکیانگ میں جاری سخت پالیسیاں قانون کے مطابق ہیں۔‘‘

چین کی اسٹیٹ کونسل اور کابینہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’سنکیانگ طویل عرصے سے چینی سرزمین کا حصہ ہے لیکن دہشت گرد اور انتہاپسند فورسز نے اس علاقے کی تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں کو فروغ دیا ہے۔‘‘

اس حوالے سے جاری ہونے والے ایک وائٹ پیپر کے مطابق، ’’سن دو ہزار چودہ سے سنکیانگ میں 1,588 تشدد پسند اور دہشت گرد گینگز کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ تقریباﹰ 13 ہزار دہشت گردوں کو گرفتار اور 2052 دھماکا خیز ڈیوائسز قبضے میں لی گئی ہیں۔ 30 ہزار سے زائد افراد کو تقریباﹰ پانچ ہزار غیرقانونی مذہبی سرگرمیوں کے جرم میں سزائیں سنائی گئی ہیں۔ غیرقانونی مذہبی مواد کی تین لاکھ 45 ہزار سے زائد کاپیاں پکڑی گئی ہیں۔‘‘

اس میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ’’دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں اور انتہاپسندی کو ختم کرنے کی کوششیں قانون کے عین مطابق کی گئی ہیں۔‘‘

دوسری جانب انسانی حقوق کے گروپوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ محض ’’ایغور نسل کو دبانے کے لیے سیاسی عذر‘‘ پیش کیا گیا ہے۔ جلاوطن عالمی ایغور کانگریس کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’اس نام نہاد وائٹ پیپر کو جاری کرنے کا مقصد انتہاپسندانہ پالیسیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے مقامی سطح پر حمایت حاصل کرنا ہے۔‘‘

نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اب سنکیانگ میں جگہ جگہ لگے پبلک سائن بورڈز خبردار کرتے ہیں کہ کسی کو بھی کسی عوامی جگہ پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ کوئی بھی شہری پچاس برس کی عمر کو پہنچنے سے قبل داڑھی نہیں رکھ سکتا اور مسلمان سرکاری ملازمین کے لیے رمضان میں روزہ رکھنا بھی قانوناﹰ منع ہے۔

اے ایف پی کے مطابق چین میں سنکیانگ کی اکثریتی ایغور مسلم آبادی اب اسی طرح کی ’پولیس اسٹیٹ‘ اور ’اوپن ایئر جیل‘ میں زندگی گزار رہی ہے۔ صوبہ سنکیانگ کے اس علاقے میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ترک نژاد ایغور نسل سے ہے۔

ا ا / ا ب ا ( اے پی، اے ایف پی)