1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تشدد کا نشانہ بننے والے سیاسی پناہ کے حقدار، يورپی عدالت

24 اپریل 2018

يورپی عدالت برائے انصاف نے يہ فيصلہ سنايا ہے کہ تشدد کا نشانہ بننے والے مہاجرين اس صورت ميں عارضی پناہ کے حقدار قرار ديے جا سکتے ہيں، اگر انہيں واپسی پر اپنے آبائی ملکوں ميں طبی سہوليات ميسر نہ ہوں۔

https://p.dw.com/p/2wZrn
Irak Flüchtlinge Frauen Missbrauch
تصویر: picture-alliance/AP/C. Thomas

يورپی عدالت برائے انصاف نے يہ فيصلہ منگل چوبيس اپريل کو سنايا ہے۔ فيصلے کے تحت يورپی کنونشن برائے انسانی حقوق کے تحت اگر تشدد کا نشانہ بننے والے سياسی پناہ کے متلاشی کسی درخواست گزار کو اس کے آبائی ملک واپسی پر طبی سہوليات کی عدم دستيابی اور ايسی صورتحال کا سامنا ہو کہ جس ميں اس کی حالت مزید بگڑ سکتی ہو، تو اسے پناہ فراہم کی جا سکتی ہے۔

برطانوی سپريم کورٹ نے سری لنکا کے تامل ٹائیگرز کے ايک سابقہ رکن کے حوالے سے اس بارے ميں يورپی عدالت برائے انصاف سے رجوع کيا تھا۔ اس شخص کا دعوی ہے کہ اسے سری لنکا کی افواج نے تشدد کا نشانہ بنايا تھا۔ برطانوی عدالت نے لکسمبرگ ميں عدالت سے درخواست کی تھی کہ اس بارے ميں کوئی فيصلہ کيا جائے کہ آيا ايسی صورتحال ميں سن 2004 کے يورپی ہدايت نامے کے تحت يورپی يونين سے باہر کے کسی ملک کے متاثرہ شخص کو کم سے کم ’سبسڈری پروٹيکشن‘ فراہم کی جا سکتی ہے۔

دستاويزات ميں اس سری لنکن شخص کا نام ’MP‘ بتايا گيا ہے اور وہ سن 2005 ميں ايک طالب علم کے طور پر برطانيہ پہنچا تھا تاہم تين برس بعد اس کے قيام کی اجازت ختم کر دی گئی تھی۔ اس نے ایک برس بعد سياسی پناہ کی درخواست دی جس ميں اس نے لکھا کہ اسے سری لنکا ميں فوج نے تشدد کا نشانہ بنايا تھا، جس سبب وہ شديد ذہنی دباؤ کا شکار رہا۔ ابتداء ميں اس کی درخواست مسترد کر دی گئی لیکن بعد ازاں يہ معاملہ عدالت عظمی تک پہنچا۔

يورپی عدالت برائے انصاف کے گيارہ ميں سے ايک جج نے پچھلے سال اپنے ريمارکس ميں لکھا تھا کہ سری لنکا واپسی پر متعلقہ شخص خود کشی کر سکتا ہے۔ اس جج کے مطابق سن 1984 کے کنونشن کے تحت چونکہ سری لنکا پر يہ الزام ہے کہ وہاں اس پر تشدد کيا گيا، اسی ملک کی يہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اسے واپسی پر تحفظ فراہم کيا جائے۔

يورپ ميں بہتر مستقبل کی خواہش اور بھيانک حقيقت

ع س / اا، نيوز ايجنسياں