1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’تشدد، جبر، جنسی استحصال‘ جرمنی میں جدید غلامی کے انداز

28 اگست 2018

پابندی کے باوجود بھی مختلف ممالک میں آج بھی لوگ غلامانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ دنیا بھر میں اب بھی چالیس ملین افراد جدید غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں جن میں سے تقریباً ایک لاکھ سڑسٹھ ہزار جرمنی میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/33tXQ
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler

تاریخی طور پر غلام کا مطلب کسی شخص پر قانونی ملکیت تھا۔ انٹرنیشنل جسٹس مشن ( آئی جے ایم) کی جرمن شاخ کے سربراہ ڈیٹمار رولر کہتے ہیں کہ غلامی کا تصور بدل چکا ہے، ’’غلامی اب قانونی نہیں رہی مگر اب یہ ایک گرگٹ کی طرح رنگ بدل بدل کر خفیہ طور پر زندہ ہے۔‘‘ یہ ادارہ دنیا بھر میں انسانوں کی تجارت  کو روکنے کے لیے کام کر رہا ہے۔

 

جرمنی ’یورپ کا قحبہ خانہ‘

جرمنی میں سب سے زیادہ جسم فروش خواتین کو استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈیٹمار رولر کہتے ہیں، ’’جرمنی کو جسم فروشی کا یورپی اڈہ کہا جا سکتا ہے۔‘‘ اعداد وشمار کے مطابق اس شعبے کی زیادہ تر متاثرہ خواتین کا تعلق بلغاریہ، رومانیہ کے علاوہ جرمنی سے بھی ہے۔ اس کے علاوہ نائجیریا کی خواتین بھی متاثرین میں شامل ہیں۔

Prostituierte vom Straßenstrich in der Kürfürstenstraße
تصویر: picture-alliance/R. Kremming

حکام کے مطابق زیادہ تر خواتین کو دھوکا دیتے ہوئے جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے اور پھر ان کے لیے اس شکنجے سے جان چھڑانا مشکل ہو جاتی ہے۔

انٹرنیٹ اضافے کی وجہ

گزشتہ برسوں کے دوران انٹرنیٹ کے ذریعے جنسی استحصال کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ اس بارے میں رولر کہتے ہیں، ’’مثال کے طور پر کوئی جرمن صارف ایک گھنٹے کے لیے فلپائن میں کسی بچے کو کرائے پر لے سکتا ہے اور پھر وہ بچہ کیمرے کے سامنے وہ سب کچھ کرتا ہے، جس کی صارف خواہش کرتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جدید غلامی زمینی سرحدوں کی محتاج نہیں ہے۔ اس صورتحال میں کم عمر بچوں کی ایک بڑی تعداد بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

Grenze Venezuela - Brasilien - Prostituierte in Boa Vista
تصویر: DW/K. Andrade

آسٹریلوی ادارے ’واک فری فاؤنڈیشن ‘ کے ایک سروے کے میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں چالیس ملین سے زائد افراد جدید  غلامی کا شکار ہیں، ’’جدید غلامی کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی ایک شخص کسی دوسرے کی آزادی صلب کر لے، اسے جسمانی طور پر کنٹرول کرے اور اسے اس کی مرضی سے کام کرنے یا چھوڑنے کی اجازت بھی نہ ہوتاکہ اس کا استحصال کیا جا سکے۔‘‘ واک فری فاؤنڈیشن کے مطابق آزادی خوف و خطرات، تشدد، جبر، طاقت کے ناجائز استعمال اور دھوکے سے حاصل کی جاتی ہے۔

 یورپ میں بڑھتا ہوا رجحان

لیبیا، قطر اور جمہوریہ کانگو جیسے ممالک سے تو جدید غلامی کی خبریں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں۔ تاہم اس دوران یورپی کونسل نے اس براعظم میں انسانوں کی تجارت اور جبری مشقت کے بڑھتے ہوئے واقعات سے بھی خبردار کیا ہے۔ جرائم کی روک تھام کے جرمن ادارے نے بتایا کہ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کام کرنے والے مہاجرین کا خاص طور پر استحصال کیا جاتا ہے جب کہ دیگر کئی شعبوں میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔