1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی کی دستوری عدالت کے فیصلے پر وزیر اعظم رجب طیب ایردوان کا ردِ عمل

10 جون 2008

ترکی میں ایک ہفتہ قبل اعلیٰ آئینی عدالت کا فیصلہ حکمران سیاسی جماعت کے لیڈروں اور کارکنوں کے لیئے خاصا پریشانی کا باعث ہے کیونکہ اِس کے ملکی سیاست پر دوررس اثرات مرتب ہو سکتےہیں۔

https://p.dw.com/p/EH7g
ترکی کےوزیر اعظم رجب طیب ایر دوانتصویر: AP

ترک وزیر اعظم رجب طیب ایر دو ان نے دستوری عدالت سےکہا ہے کہ وہ سکارف کو ترکی کی سیکولر روایت کے منافی قرار دینے کی وضاحت کرے اور یہ بھی واضح کرےکہ کس اختیار پر عدالت نے اِس ترمیم کا جائزہ لیا ہے۔

ایردوہان حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے میں شامل یونیورسٹیوں میں سر پر سکارف پہن کر جانے کی اجازت کو ترکی کی اعلیٰ آئینی عدالت کی جانب سے ملکی تشخص کے منافی قرار دینے کے بعد اب ترکی میں نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔

Emine Erdogan
ترک خواتین میں سر پر سکارف باندھنا خاصا مقبول ہے۔ تصویر میں وزیر اعظم ایردوان کی اہلیہ امینہ جو خواتین کےلیئے رول ماڈل بنتی چلی جا رہی ہیں۔تصویر: AP

سیکولر حلقوں نے اس فیصلے کو خوش آئند قراردیا ہے جب کہ دوسری جانب تشویش کی لہر پیدا ہو گئی ہے کیونکہ یہ عدالت موجودہ حکمران سیاسی جماعت اور اُس کے اکہتر اعلیٰ شخصیات کو کالعدم قراردے کر سیاست سے بے دخل کر سکتی ہے۔ اِن میں موجودہ وزیر اعظم رجب طیب ایردوان بھی شامل ہیں۔ اِس مناسبت سے ایک اپیل اعلیٰ عدالت کے پاس پہلے ہی جمع کروائی جا چکی ہے جس پر فیصلہ ستمبر یا اکتوبر میں متوقع ہے۔

ترک وزیر اعظم نے ایک بار پھر کہا ہے کہ دستوری عدالت کے پاس اختیار نہیں کہ وہ دستور میں پارلیمنٹ کے ذریعے کی جانے والی ترامیم کو چیلنج یا اُن کی جانچ پڑتال کرے۔ ایردوان کا کہنا ہے کہ دستور میں یہ تحریر ہے کہ قانون سازی کا اختیار کُلی طور پر منتخب ممبرانِ پارلیمنٹ کے پاس ہے۔

Demonstration gegen Aufhegung des Kopftuchverbots Türkei
ترکی میں سکارف کےخلاف سیکولر مظاہرہتصویر: picture-alliance/ dpa

ایردوان کا مزید کہنا تھا کہ اُن اراکین پارلیمنٹ کی جگہ کوئی اور شخص یا ادارہ نہیں لے سکتا۔ اُن کا مزیدکہنا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کی قانونی طاقت کو کوئی ادارہ بشمول دستوری عدالت نظر انداز کرنےکی مجاز نہیں۔ ایردوہان کے مطابق گزشتہ ہفتےکا اعلیٰ عدالت کا فیصلہ جمہوری ریاست کو عدم استحکام کی جانب دھکیل سکتا ہے۔

اِس تناظر میں ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے دو تین ماہ میں دستوری عدالت کی جانب سے ایک اور فیصلہ ایردوہان کی سیاسی جماعت کےخلاف آ سکتا ہے کیونکہ ترکی میں ماضی میں بھی ایسا ہوتا چلا آیا ہے۔ اِس سے پہلے ترک پارلیمنٹ کے سپیکر نے دستوری عدالت کے اختیارات میں کمی لانے کو تجویز کیا تھا۔ حزبِ مخالف کی مرکزی سیاسی جماعت نے ایسی کسی تجویز کو یکسر مسترد کردیا ہے۔

Gül will trotz drohender Krise türkischer Präsident werden
ترک صدر عبد اُللہ گُل بھی حکمران سیاسی جماعت سے وابستہ رہے ہیں۔ اگر جسٹس اینڈ ڈی ویلپمنٹ پارٹیکو کالعدم قراردیا جاتا ہے تو اُس کی زد میں صدر بھی آئیں گے۔تصویر: picture-alliance/dpa

جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کا یہ بھی مؤقف ہے کہ دستوری عدالت کا فیصلہ پارلیمنٹ کے اختیار میں مداخلت ہے اور دستور کے منافی ہے۔ ترک دستوری کورٹ کے فیصلے پر امریکہ میں قائم انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اِس کو مایُوس کُن قراردیا۔