1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی روس اور یوکرین کے مابین سفارتی توازن رکھ پائے گا؟

1 مارچ 2022

ترکی نے روس کے جنگی بحری جہازوں کے آبنائے باسفورس اور درہ دانیال سے گزرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ انقرہ کا یہ اقدام اُس کی یورپ سے قربت اور روس کی ناراضگی مولنے کا سبب بن سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/47nST
Bildergalerie Türkei Istanbul
تصویر: Martin Siepmann/imageBROKER/picture alliance

 

یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ملک ترکی نے آبنائے باسفورس اور درہ دانیال کے رستے سے جنگی جہازوں کے گزرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ترکی نے تمام پڑوسی ممالک کو بحیرہ اسود کے رستے جنگی جہاز بھیجنے کے عمل سے خبردار کیا تھا۔

ترک وزیر خارجہ مولوت چاوش اوغلو نے یہ اعلان پیر کی شام دیر گئے کیا۔ انقرہ حکومت نے دراصل 'مونٹریکس کنونشن‘ یا مونٹرے معاہدے کے تحت ترکی کو حاصل اس حق کا استعمال کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے، جس میں انقرہ حکومت کو جنگی حالات میں جہازوں کو باسفورس اور ڈارڈینیلس سے گزرنے پر پابندی عائد کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ جولائی 1936ء  سے نافذ العمل ہے۔

اس وقت کم از کم چار روسی جنگی بحری جہاز بحیرہ روم سے گزرنے کی اجازت کے حصول کے منتظر ہیں۔ آبنائے باسفورس اور درہ دانیال بحیرہ اسود کو بحر مرمارہ اور بحیرہ ایجین سے ملاتے ہیں۔

ترکی کے مسلح ڈرونز کی فروخت میں غیر معمولی اضافہ

AWACS und NATO Symbole
ترکی بھی نیٹو کا رکن ہےتصویر: AP

نیٹو کا رکن ملک ترکی

ترکی روس اور یوکرین دونوں کی طرح بحیرہ اسود پر واقع ملک ہے۔ انقرہ نے گزشتہ ہفتے ہی یوکرین میں روسی جارحیت کی مذمت کی تھی۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے واضح طور پر کییف حکومت کی حمایت کا اظہار کیا تھا۔ ایردوآن کا کہنا تھا، ''ہم یوکرین میں روس کی فوجی کارروائی کو مسترد کرتے ہیں۔‘‘ ترک صدر کا مزید کہنا تھا، ''یہ حملہ خطے کے امن و استحکام کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔‘‘

رجب طیب ایردوآن کی طرف سے ان بیانات کا سامنے آنا نہایت غیر معمولی بات سمجھی جا رہی ہے کیونکہ ایردوآن کے بارے میں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ ان کے  روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ بہت گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔

ترکی کی طرف سے روسی بحری جنگی جہازوں کو بلاک کرنے اور ان کے باسفورس اور  ڈارڈینیلس سے گزرنے پر پابندی عائد کرنے کو انقرہ کی نیٹو ممبر ممالک کیساتھ تعلقات میں بہتری کے امکانات کے اشارے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ ترکی کے تعلقات یورپی اور نیٹو کے ممبر ممالک کیساتھ اکثر کشیدگی کا شکار رہتے ہیں۔ 

نیٹو کا مشرقی سرحدوں پر سکیورٹی بڑھانے کا منصوبہ

Anti USA Demonstration in der Türkei
ترکی میں امریکا مخالف جذبات بھی پائے جاتے ہیںتصویر: AP

ایسے نازک وقت میں جب تمام مغربی طاقتیں روس پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ یوکرین میں اپنی جارحیت کو فوری طور سے روکے، ترکی کی طرف سے ماسکو کی مذمت غیر معمولی امر ہے۔ ماسکو انقرہ کے خلاف انتقامی کارروائی کر سکتا ہے۔

روسی بحری جہازوں کو روک کے رکھنے کے  انقرہ کے عزم کا اندازہ آئندہ چند دنوں کے اندر ہی ہو جائے گا۔ آیا ترکی مغرب اور مشرق کے مابین اپنے منفرد نازک سفارتی توازن کو برقرار رکھ پائے گا یا نہیں، یہ امر آئندہ دنوں میں واضح ہو جائے گا۔ ترکی کی طرف سے گزشتہ اتوار کو اُس کے دیرینہ بیانیے میں تبدیلی اُس وقت سامنے آئی جب انقرہ نے یوکرین پر روس کے حملے کو 'جنگ‘ کا نام دیا۔ اس اقدام سے انقرہ کو بین الاقوامی معاہدے کے تحت بحیرہ روم اور بحیرہ اسود میں چند روسی جنگی جہازوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کا جواز مل گیا۔

ترکی مخمسے میں

 نیٹو کے رُکن کی حیثیت سے ترکی ایک مشکل پوزیشن میں آ گیا ہے۔ اُس کے تعلقات روس اور یوکرین دونوں کیساتھ دوستانہ رہے ہیں۔ مغرب کی طرف جھکاؤ ترکی کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اگر ترکی نے روسی بحری جہازوں پر نقل و حرکت کی پابندی نہ ہٹائی تو ماسکو کی طرف سے رد عمل سخت ہو سکتا ہے اور روس اور ترکی کے تعلقات میں غیر معمولی تناؤ پیدا ہونے کے امکانات قوی ہیں۔ترک خفیہ ایجنسی نے اسلحے کے ڈیلر کو یوکرائن میں پکڑ لیا

 

Militärübung zwischen Russland und Weißrussland
2019 ء میں انقرہ حکومت نے روس سے S-400 طرز کے میزائل خریدے تھےتصویر: Belarus Defense Ministruy/AA/picture alliance

اس کے علاوہ ترکی اور روس کے درمیان عسکری تعاون بھی قائم رہا ہے۔ 2019 ء میں انقرہ حکومت نے روس سے S-400 طرز کے میزائل  خریدے تھے۔ اس خریداری کے بعد ترکی کے نیٹو ممالک کیساتھ تعلقات میں فیصلہ کُن تبدیلی رونما ہوئی اور امریکہ  نے تو پابندی تک عائد کی تھیں۔

ترکی فی الحال تبضب کا شکار ہے۔ روس کی قدرتی گیس پر ترکی کی 45 فیصد درآمدات کا انحصار ہے جبکہ ترکی کا مشہور زمانہ سیاحتی شعبہ بھی متاثر ہو سکتا ہے کیونکہ ترکی کی سیاحت میں 20 فیصد حصہ روسی سیاحوں کا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ روس کے ساتھ توانائی اور دفاعی شعبے میں قریبی تعلقات کا جھانسا دیتے ہوئے انقرہ حکومت نے یوکرین سے ڈرون فروخت کیے تھے اور مشترکہ ڈرون سازی کے ایک معاہدے پر دستخط بھی کیے تھے۔ اس اقدام نے ماسکو کو بہت غصہ دلایا تھا۔

ک م / ع آ (روئٹرز)