1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تارکين وطن کو برطانيہ ميں کن حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟

عاصم سلیم Kai Dambach
7 اپریل 2018

برطانيہ ميں غير قانونی تارکين وطن کو حراستی مراکز ميں رکھا جاتا ہے۔ چند ماہرين کا دعوی ہے کہ ان حراستی مراکز کا حال اس قدر خراب ہے کہ انہيں بند ہو جانا چاہيے۔

https://p.dw.com/p/2vdlO
Brook House Immigration Removal Centre
تصویر: picture alliance/empics/G. Fuller

يورپی سطح پر ديکھا جائے تو تعداد کے اعتبار سے برطانيہ ميں سب سے زيادہ غير قانونی تارکين وطن کو زير حراست رکھا جاتا ہے۔ ستمبر سن 2015 ميں ساڑھے تين ہزار سے زائد مہاجرين مختلف حراستی مراکز ميں بند تھے۔ بعد ازاں اس تعداد ميں کمی آئی اور اب وہاں کسی بھی وقت اوسطاً قريب تين ہزار غير قانونی تارکين وطن ايسے مراکز ميں بند رہتے ہيں۔ ’دا مائگريشن آبزرويٹری ايٹ دا يونيورسٹی آف آکسفورڈ‘ کے مطابق سالانہ بنيادوں پر لگ بھگ تيس ہزار غير قانونی تارکين وطن کو برطانيہ کے مختلف حراستی مراکز ميں عارضی مدت کے ليے قید رکھا جاتا ہے۔ مہاجرين کو ان مراکز ميں ان کی سياسی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی کے دوران اور درخواست مسترد ہو جانے اور ملک بدری سے قبل کے دورانيے ميں رکھا جاتا ہے۔

ويسے تو برطانيہ ميں قائم متعدد حراستی مراکز کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہيں تاہم دارالحکومت لندن کے گيٹوک ايئر پورٹ کے قريب واقع بروک ہاؤس مرکز اور بيڈ فورڈ ميں قائم يارلز ووڈ خاص طور پر بدنام ہيں اور وہاں انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزيوں کی رپورٹيں موصول ہوتی رہتی ہيں۔ يارلز ووڈ ميں زير حراست 120 عورتوں نے فروری ميں بھوک ہڑتال کی، جس کے بعد يہ مسئلہ ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا۔ برطانوی شيڈو ہوم سيکرٹری ڈیانے ايبٹ حال ہی ميں ان خواتين سے مليں او اس کے بعد انہوں نے بتایا کيا کہ حراستی مرکز کے عملے نے یہ کہہ کر کہ وہاں کسی نے بھوک ہڑتال نہیں کی، ان کے ساتھ بھی غلط بیانی سے کام لیا تھا۔

دريں اثناء بروک ہاؤس مرکز ميں خفيہ طور پر بنائی گئی ايک ويڈيو ميں عملے کو تارکين وطن کے ساتھ انتہائی بد تميزی کے ساتھ پيش آتے ہوئے اور ان پر تشدد کرتے ہوئے ديکھا جا سکتا ہے۔ یہ ويڈيو پچھلے سال ستمبر ميں بنائی گئی تھی اور اس ميں چند مقيد تارکين وطن خود کشی کرنے کی دھمکی بھی ديتے نظر آئے۔ اس بارے ميں منظر عام پر آنے والی رپورٹ کے بعد عملے کے دس ارکان کو برطرف کر ديا گيا تھا۔

بروک ہاؤس اور يارلز ووڈ دونوں ميں ايسے واقعات رونما ہوئے ہيں، جن ميں زير حراست تارکين وطن نے خود کو جسمانی طور پر زخمی کیا۔ ’فريڈم آف انفارميشن ايکٹ‘ کی چند برس قبل سامنے آنے والی ايک رپورٹ کے مطابق سن 2016 ميں بروک ہاؤس ميں ايسے چوراسی اور يارلز ووڈ ميں چوہتر واقعات رپورٹ کے گئے۔ برطانوی اخبار ’دا انڈيپينڈنٹ‘ کے مطابق برطانيہ بھر ميں موجود حراستی مراکز ميں پچھلے دو سالوں کے دوران زير حراست تارکين وطن کی جانب سے خود کو نقصان پہنچانے کا يوميہ کم از کم ايک واقعہ رپورٹ کيا گيا۔ علاوہ ازيں کئی مراکز ميں تارکين وطن کو سوشل ميڈيا استعمال کرنے اور غير سرکای تنظيموں سے رابطہ کرنے کی اجازت بھی نہيں۔

یورپ جانے کا شوق، ’پاکستانی مہاجرین بھی پھنس گئے‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید