بیکنی یا پورا لباس: اسلامی یکجہتی گیمز تنازعے کا شکار
20 ستمبر 2013اسلامی یکجہتی گیمز میں شامل چند ممالک کا مطالبہ ہے کہ بیچ والی بال اور ایتھلیٹک گیمز، ٹریک اینڈ فیلڈ اور تیراکی وغیرہ میں حصہ لینے والی خواتین دوران کھیل ایسے لباس میں ملبوس ہوں جس سے اُن کا پورا جسم ڈھکا رہے۔ تاہم اس ایونٹ کی انتظامیہ نے ’ٹو پیسس اسپورٹنگ آؤٹ فٹ‘ یا بیکنی کو ترک کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اسلامی یکجہتی گیمز کی انتظامیہ کمیٹی کے ایک رکن ’جوکو پرامونو‘ نے اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا،’’ ہم نے اس ایونٹ میں بین الاقوامی قونین کے اطلاق پر اتفاق کیا ہے۔ اس میں ڈرس کوڈ بھی شامل ہے۔ جو ممالک بیکنی کا استعمال نہیں کرنا چاہتے وہ نہ کریں، تاہم دیگر ممالک جنہیں اس سے کوئی اعتراض نہیں ہے، ہم انہیں بیکنی کے استعمال کی اجازت دیں گے‘‘ ۔
ویک اینڈ سے انڈونیشیا میں شروع ہونے والے اسلامی یکجہتی گیمز 2013 ء میں شرکت کے لیے 44 مسلم اقوام کے ہزاروں ایتھلیٹس حصہ لے رہے ہیں۔ جوکو پرامونو کا کہنا ہے کہ خواتین ایتھلیٹس کے بیکنی پہننے پر اعتراض اُن ممالک کی طرف سے کیا گیا ہے جہاں اسلامی حکومتیں برسر اقتدار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی تمام حکومتوں نے مشترکہ طور پر بیکنی کے استعمال کی مخالفت کی ہے۔ تاہم انتظامیہ کمیٹی کے رکن جوکو پرامونو نے ان ممالک کا نام نہیں بتایا ہے۔ اس سال ان کھیلوں کا انعقاد دوسری بار ہو رہا ہے۔
اس سے قبل پہلی بار اس کا انعقاد سعودی عرب میں ہوا تھا جہاں نہ صرف خواتین ایتھلیٹس کے بیکنی پہننے پر پابندی تھی بلکہ مردوں اور خواتین کے مقابلے علیحدہ علیحدہ دن منعقد ہوئے تھے اور مردوں کو خواتین کی تیراکی کے مقابلوں کو دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ چند ممالک نے اس بار بھی ان گیمز کی انتظامیہ سے مردوں اور خواتین کے مقابلوں کو علیحدہ علیحدہ دن منعقد کروانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم انتظامیہ کمیٹی کے رکن جوکو پرامونو نے کہا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ کن ممالک نے بیکنی پہننے کا فیصلہ کیا ہے۔
ملیشیا، انڈونیشیا اور برونائی کی خواتین کھلاڑی ماضی میں متعدد مقابلوں میں بیکنی زیب تن کر چُکی ہیں۔ اس بار کے اسلامی یکجہتی گیمز کے انعقاد کے سلسلے میں کئی دشواریاں سامنے آئیں۔ اس مسلم ریاست میں بڑے اسپورٹس ایونٹس کے انعقاد کی تاریخ پُرانی ہے۔ اس بار اسلامی یکجہتی گیمز کئی ماہ تک مؤخر ہوتے رہنے کے بعد اتوار 22 ستمبر کو شروع ہو کر یکم اکتوبر تک جاری رہے گا۔ اس بار کے ان کھیلوں کے انعقاد کے مقام کے فیصلے میں بھی دو بار تبدیلی آئی اور اب یہ سماترا کے جزیرے پر واقع شہر پالمبانگ میں منعقد ہو رہے ہیں۔
اس بار کا اصل میزبان شہر پیکن بارو تھا جہاں کے گورنر کرپشن کے متعدد اسکینڈلز کے سخت دباؤ میں ہیں اسی لیے جب اس کے اسٹیڈیم کو بلامعاوضہ کام کرنے والے مزدورں نے بند کر دیا تو گورنر اس کے خلاف کچھ نہ کر سکے۔ اس کے سبب دارالحکومت جکارتہ کو اس بار کے اسلامی یکجہتی گیمز کا میزبان بنانے کا فیصلہ کیا گیا جو قائم نہ رہ سکا اور آخر کار یہ میزبانی پالمبانگ شہر کو اُس وقت سونپ دی گئی جب سماترا حکام نے اس بات کی شکایت کی کہ منتظمین کو اتنے بڑے ایونٹ کی تیاری کے لیے محض دو مہینے کا وقت دیا گیا ہے۔
2011 ء میں ساؤتھ ایشین گیمز کے چند حصوں کا انعقاد بھی پالمبانگ کمپلیکس میں ہوا تھا تاہم تب فوڈ پوائزننگ کا ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تھا جس کا شکار متعدد ایتھلیٹس ہوئے تھے۔ اس وجہ سے اس بار کے اسلامی یکجہتی گیمز کے پالمبانگ میں انعقاد پر اکثر لوگ تشویش ظاہر کر رہے ہیں۔