بیوی کا قاتل پاکستانی نژاد امریکی: اپنی پیروی خود
25 جنوری 2011گزشتہ روز مقدمے کی سماعت کرنے والے جج نے مزمل حسین کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنے وکیل صفائی جیرمی شوارٹز کی بجائے خود اپنے مقدمے کی پیروی کر سکتے ہیں۔ تاہم شوارٹز اس مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت میں موجود رہیں گے تاکہ ضرورت کے وقت ان سے مدد لی جا سکے۔
46 سالہ مزمل حسین پر اپنی بیوی پر چاقو کے 40 وار کرنے کے علاوہ سر کو تن سے بھی جدا کر نے کے الزامات ہیں۔ ان کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر نے جیوری کو بتایاکہ مزمل حسین نے اپنی بیوی کو اس وقت قتل کیا جب اس کے تین بچے باہر گاڑی میں اپنے ماں باپ کے منتظر تھے۔ اس قتل کے ارتکاب کے ایک گھنٹے بعد مزمل نے خود کو پولیس کے حوالے کردیا تھا۔ وکیل استغاثہ نے عدالت میں وقوعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتولہ آسیہ کی سربریدہ لاش ان کے گھر کے ہال وے میں تھی اور کٹا ہوا سر چند فٹ کے فاصلے پر پڑا ہوا تھا۔ مزمل حسین کے وکلاء نے عدالت میں مؤقف اختیار کر رکھا ہے کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور ہو گیا تھا کیونکہ اس کی اپنی جان کو خطرہ لاحق تھا۔
مزمل نے اپنی 37 سالہ مقتول بیوی کے ہمراہ بفلو جیسے پر تعیش علاقے میں ایک ٹیلی وژن چینل Bridges TV قائم کیا تھا۔ اس چینل کے قیام کی وجہ 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف پیدا شدہ نفرت کے جذبات کو کم کرنا تھا۔
امریکی سماجی حلقے اس قتل کو واضح طور پر ’غیرت کے نام پر قتل‘ کی کھلی مثال کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ مزمل اور ان کی بیوی کی پیدائش پاکستان میں ہوئی تھی۔ قتل کا یہ واقعہ بارہ فروری 2009ء کا ہے۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: امتیاز احمد