1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیروت دھماکے اور مظاہروں کے بعد لبنانی حکومت مستعفی

11 اگست 2020

 بیروت میں گزشتہ ہفتے ہوئے تباہ کن دھماکے اور حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی مظاہروں کے بعد لبنانی وزیر اعظم حسن دیاب کی حکومت نے استعفی دے دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3glan
Libanon Beirut Premierminister Hassan Diab
تصویر: Reuters/M. Azakir

وزیر اعظم حسن دیاب نے ٹیلی ویزن پر قوم کے نام مختصر خطاب میں کہا ”میں اس حکومت سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ خدا لبنان کی حفاظت کرے۔"

لبنانی صدر مائیکل عون نے حکومت کا استعفی منظور کرلیا ہے۔

بیروت میں ہونے والے دھماکے کے بعد حکومت کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ جس کے بعد متعدد وزراء نے پہلے ہی اپنے عہدوں سے استعفی دے دیا تھا۔ وزیر اعظم حسن دیاب نے کہا ”وہ ایک قدم پیچھے ہٹ رہے ہیں تاکہ وہ عوام کے ساتھ کھڑے ہوسکیں اور ان کے ساتھ مل کر تبدیلی کی جنگ لڑسکیں۔"

حسن دیاب نے مزید کہا”آج وہ عوام اور ان کے مطالبات کے آگے اپنا سر جھکا رہے ہیں تاکہ اس تباہی کے لیے ذمہ دار لوگوں کا حساب لے سکیں۔ انہوں نے کہا”ہم اپنے ملک کے شہریوں کے مطالبے پر عمل کریں گے اور ان لوگوں کو کٹہرے میں لائیں گے جو اس واقعے کے ذمے دار ہیں اور سات سال سے چھپے ہوئے ہیں۔"

دیاب نے بیروت میں ہونے والے ہلاکت خیز دھما کے کے لیے اپنے پیش رووں کو مورد الزام ٹھہرایا اور کہا”انہیں (سیاسی طبقے کو) اپنی حرکتوں پر شرمندہ ہونا چاہیے کیوں کہ ان کی بدعنوانیوں کے سبب ہی یہ تباہی ہوئی ہے جسے سات برسوں سے چھپا کر رکھا گیا تھا۔"  ان کا کہنا تھا”بدعنوانی ہی اس المیہ کی وجہ ہے۔ ہمارے اور تبدیلی کے درمیان ان کے گھناونے حربوں کی موٹی دیوار کھڑی ہے۔“

Libanon Proteste in Beirut
​​​​بیروت میں ہونے والے دھماکے کے بعد حکومت کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔تصویر: Reuters/G. Tomasevic

قبل ازیں حکومت پر استعفی دینے کے لیے عوامی دباو کے درمیان لبنانی حکومت نے پیر کے روز کابینہ کی میٹنگ کی۔ انہوں نے میٹنگ کے دوران کہا کہ 'پوری حکومت مستعفی ہورہی ہے۔‘

 خیال رہے کہ بیروت میں ہونے والے دھماکے میں 168 افراد ہلاک اور چھ ہزار سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ سے قبل چار وزراء استعفی دے چکے تھے۔ سب سے پہلے وزیر اطلاعات منال عبد الصمد نے عوام سے معافی مانگنے کے بعد اپنا استعفی دے دیا تھا۔ وزیر اطلاعات کے بعد وزیر ماحولیات اور وزیر انصاف نے بھی اپنے اپنے عہدوں سے استعفی دے دیا تھا۔

دو روز قبل بیروت میں ہزاروں مشتعل مظاہرین نے وزارت خارجہ اور وزارت اقتصادیات کے دفاتر پر دھاوا بول دیا تھا۔ مظاہرین نے پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی لیکن سکیورٹی فورسز نے اسے ناکام بنا دیا۔ ا س دوران مظاہرین اور سکیورٹی اہلکاروں میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔

دریں اثنا فرانس نے لبنان میں جلد از جلد ایک نئی حکومت کی تشکیل کی اپیل کی ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ نے حسن دیاب کے استعفی کے اعلان کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا”اصلاحات اور حکمرانی کے متعلق لبنانی عوام کی امنگوں کا خیال رکھاجانا چاہیے۔"  انہوں نے مزید کہا ” ایک ایسی حکومت کے قیام کو سب سے زیادہ ترجیح دی جانی چاہیے جو عوام کے امنگوں پر پورا اترسکے، جس کا مشن ملک کو درپیش چیلنجز، بالخصوص بیروت کی تعمیر نو اور ملک کی خراب اقتصادی صورت حال، کا مقابلہ کرنا ہو، کیوں کہ اس کے بغیر لبنان اقتصادی، سماجی اور سیاسی افراتفری کا شکار ہوجائے گا۔“

Libanon Beirut | nach Explosion im Hafenviertel
بیروت میں ہونے والے دھماکے میں 168 افراد ہلاک اور چھ ہزار سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔تصویر: Reuters/M. Azakir

اس دوران  فرانسیسی صدر ایمانویل میکروں نے بیروت کا دورہ کیا ہے۔ وہ بیروت میں ہلاکت خیز دھماکے کے بعد وہاں کا دورہ کرنے والے پہلے مغربی رہنما ہیں۔

دریں اثنا لبنانی عدالت نے بیروت میں تباہ کن دھماکے سے متعلق سکیورٹی ایجنسیوں کے سربراہوں سے پوچھ گچھ شروع کردی ہے۔ جج غسان الخوری نے سرکاری سکیورٹی کے سربراہ میجر جنرل ٹونی سیلیبا سے پوچھ گچھ کی۔ تاہم اس ضمن میں اضافی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

ج ا / ص ز  (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں