بھوٹان کی 74 فیصد خواتین جسمانی تشدد کا شکار
23 مارچ 2016بھوٹان جنوبی ایشیا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی کل آبادی لگ بھگ 7.5 لاکھ ہے۔ بدھ مت کے ماننے والی اکثریت پر مشتمل اس ملک کو وہاں قائم ’قومی کمیشن برائے خوشی‘ کے حوالے سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ لیکن یہاں پر خواتین پر تشدد کے واقعات اس کمیشن کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔
اس کمیشن کے سیکرٹری کرما شیٹیم نے کہا، ’’ملک میں خواتین پر تشدد کے اعدادو شمار حیران کن ہیں، یہ بدھ مت کی تعلیمات کے منافی ہیں۔‘‘ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں ایک 28 سالہ بھوٹانی خاتون سونم زانگمو کا انٹرویو کیا ہے جو شادی کے دو سال تک اپنے شوہر کے ظلم وستم کا نشانہ بنتی رہی اور بیٹی کی پیدائش کے بعد اس نے اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کر لی۔ یہ خاتون کہتی ہیں، ’’ میں اپنی چھ برس کی بیٹی کی تنہا پرورش کر رہی ہوں لیکن اپنے شوہر کو چھوڑ کر میں خوش ہوں۔‘‘ سونم مہینے میں صرف 100 ڈالر کے قریب کماتی ہیں تاہم توقع رکھتی ہیں کہ ان کی بیٹی ان سے بہتر زندگی گزار پائے گی۔
عام تاثر یہی ہے کہ اگر بھوٹان میں خواتین کے بارے میں تاثر تبدیل نہ ہوا تو سونم کی بیٹی اور نئی نسل کی لڑکیاں مستقبل میں تشدد کا شکار ہونے سے نہیں بچ پائیں گی۔
خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کے لیے ایک غیر سرکاری ادارہ ’رینیو‘ بھوٹان میں سن 2004 سے کام کر رہا ہے۔ یہ ادارہ اب تک خواتین پر تشدد کے 4000 کیسز رجسٹر کر چکا ہے۔ اس ادارے کے 2400 سے زائد رضا کارخواتین پر تشدد کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور معاشرے میں اس بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے سرگرم ہیں۔ اس ادارے کی ایک رضا کار امبیکا نیوپانے جو خود گھریلو تشدد کا شکار رہی ہیں، کہتی ہیں، ’’بہت سی خواتین کو ہماری مدد درکار ہے۔ ہم انہیں آگے آنے میں اور انہیں قانونی مشاورت فراہم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔‘‘ سن 2014 میں رینیو نے تشدد کے 50 کیسز ہائی کورٹ بھیجے تھے اور یہ ادارہ 132 خواتین کو ایک شیلٹر میں پناہ بھی فراہم کیے ہوئے ہے۔
بھوٹان کے وزیراعظم نے یہاں کی عوام سے گھریلو تشدد کے خاتمے کے لیے سن 2013 میں منظور ہونے والے قانون پر عمل در آمد کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں نے پارلیمنٹ میں بھی خواتین کی نمائندگی کو بڑھانے، معشیت میں خواتین کے کردار کو بھی بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔