1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی کشمیر میں قبر کی نشاندہی مگر قبر اندر سے خالی

7 جنوری 2021

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک ٹین ایجر کو سکیورٹی فورسز نے ایک مبینہ جھڑپ میں ہلاک کیا اور پھر تدفین بھی کر دی۔ اس کے باپ کے مطالبے پر قبر کی نشاندہی تو کر دی گئی مگر جب اس قبر کو کھودا گیا تو وہ اندر سے خالی تھی۔

https://p.dw.com/p/3ne3T
Indien Kaschmir-Konflikt l Stadt Srinagar
تصویر: picture-alliance/Xinhua/J. Dar

تیس دسمبر کو سولہ برس کے اطہر مشتاق کی سری نگر کے نواح میں سکیورٹی فورسز کی گولیاں لگنے سے ہلاکت ہوئی تھی۔ اس ٹین ایجر کی نعش کو سکیورٹی حکام نے دفن بھی کر دیا مگر اس تدفین کی اطلاع اس کے خاندان کو نہیں دی گئی۔

اس واقعے کے بعد ہلاک ہونے والے ٹین ایجر کا باپ مشتاق احمد سکیورٹی حکام اور پولیس کے پیچھے پڑ گیا کہ وہ اس کے بیٹے کی قبر کی نشاندہی کریں تا کہ وہ اس کی قبر پر کتبہ لگائے اور ساتھ پھول بھی رکھ سکے۔مارے گئے مبینہ کشمیری شدت پسند بےگناہ تھے، اہل خانہ کا دعویٰ

قبر کی نشاندہی

مشتاق احمد کے شدید مطالبے پر سکیورٹی حکام نے ایک قبر کے بارے میں بتایا کہ اس میں اطہر مشتاق کو دفن کیا گیا تھا۔ ایک سرد دن مشتاق احمد کدال اور پھاؤڑا لے کر بتائی گئی قبر کو کھودنے لگا تا کہ وہ اپنے بیٹے کی نعش کو دیکھ سکے۔ وہ قبر کی کھدائی کرتا رہا لیکن اس میں سے نعش نظر نہ ائی کیونکہ وہ خالی تھی۔ اس موقع پر اچھا خاصا مجمع اکٹھا ہو گیا اور سبھی خالی قبر کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔

Indien Kaschmir Srinagar
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سخت سکیورٹی نے ویرانی کو جنم دے رکھا ہےتصویر: picture-alliance/NurPhoto/F. Khan

'مجھے میرے بیٹے کی لاش چاہیے‘

یخ بستہ موسم میں قبر کی کھدائی کے بعد بھی مشتاق احمد کا وہی مطالبہ تھا کہ مجھے میرے بیٹے کی نعش چاہیے۔ انہوں نے نیوز ایجنسی اے پی سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ بھارت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ میرے بیٹے کی لاش میرے حوالے کر دیں۔

بھی تک مشتاق احمد کشمیر میں متعین سکیورٹی حکام اور پولیس سے اپنے بیٹے کی نعش یا اسے جس مقام پر دفن کیا گیا ہے کی معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ مبینہ فرضی تدفین مقتول اطہر مشتاق کے آبائی مقام سے ایک سو پندرہ کلو میٹر کی دوری پر ایک نامعلوم مقام پر کی گئی تھی۔تین کشمیری مزدوروں کا قتل، پولیس نے فوجی افسر کو ذمہ دار قرار دے دیا

جعلی پولیس مقابلہ

سری نگر کی پولیس کے مطابق تیس دسمبر کو اطہر مشتاق نے سکیورٹی اہلکاروں کے سامنے ہتھیار پھنکنے سے انکار کر دیا اور اس کے بعد ہونے والی دو طرفہ فائرنگ میں ٹین ایجر شدید زخمی ہو کر دم توڑ گیا۔ پولیس نے کم عمر اطہر کو دہشت گردوں کا گہرا تعلق دار اور ساتھی قرار دیا ہے۔

مشتاق احمد کے خاندان کا موقف ہے کہ اطہر مشتاق کا کسی دہشت پسند گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا نا ہی وہ عسکریت پسند تھا۔ خالی قبر کھودنے کے بعد مشتاق احمد نے ارد گرد کھڑے لوگوں میں روتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے کو ایک جعلی مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے قتل  پر انصاف کے طلب گار ہیں۔

Barrikaden und Bücher im unruhigen Kaschmir
برہان وانی سمیت دوسرے عسکریت پسندوں کی تصاویر والے پوسٹر اب بھی کئی مقامات پر چسپاں کے جاتے ہیںتصویر: Reuters/D. Siddiqui

نامعلوم قبروں میں تدفین

سن 2020 میں متعارف کرائی گئی نئی دہلی حکومت کی پالیسی کے تحت کشمیری باغیوں اورعسکریت پسندوں کو فائرنگ کے تبادلے میں ہلاکت کے بعد نعش ورثا کے حوالے کرنے کیبجائے سکیورٹی حکام اسے کسی نامعلوم مقام پر دفن کر دیتے ہیں۔

ایک ماں، جو لاپتہ کشمیریوں کے لیے لڑ رہی ہے

قبل ازیں ان نعشوں کو لے کر تدفین کے وقت سینکڑوں لوگوں کا مجمع مشتعل ہو کر نئی دہلی حکومت کے خلاف نعرہ بازی اور سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ جھڑپ کی صورت اختیار کر جاتا تھا۔ اس مناسبت سے نوجوان عسکریت پسند برہان وانی کی ہلاکت اور بعد کی پرتشدد صورت حال کو مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

ع ح، ک م (اے پی)