1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی پولیس نے ’جہادی ٹوئٹر‘ کو دھَر لیا

ندیم گِل13 دسمبر 2014

بھارتی پولیس نے ایک ’جہادی ٹوئٹر‘ کو حراست میں لے ہے۔ اس چوبیس سالہ شخص پر ٹوئٹر کے ایک مقبول اکاؤنٹ کے ذریعے دہشت گرد گروہ اسلامک اسٹیٹ کی حمایت کا الزام ہے۔

https://p.dw.com/p/1E3gY
ہدی مسرور بِسواس
تصویر: picture-alliance/dpa/Indian Police Department

بھارت کے شہر بنگلور کی پولیس نے چوبیس سالہ مہدی مسرور بِسواس کو ہفتے کو گرفتار کیا ہے۔ اس پر الزام ہے کہ وہ ٹوئٹر کا اکاؤنٹ @ShamiWitness چلا رہا تھا۔ اس اکاؤنٹ کو سترہ ہزار سے زائد افراد فالو کر رہے تھے جن میں سے عراق اور شام میں اسلامک اسٹیٹ کے لیے لڑنے والے غیرملکی بھی شامل تھے۔

برطانیہ کے چینل فور نیوز نے رواں ہفتے جمعرات کو اس اکاؤنٹ کے بارے میں ایک رپورٹ دی تھی جس کے بعد اسے بند کر دیا گیا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس اکاؤنٹ سے جہادیوں کا پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے والوں کے لیے معلومات بھی دی جا رہی تھیں جبکہ مارے جانے والے فائٹروں کو شہید قرار دیا جا رہا تھا۔

بنگلور کی پولیس نے ہفتے کو بسواس کے گھر پر چھاپہ مارا۔ اس کا موبائل فون، لیپ ٹاپ اور دیگر دستاویزات ثبوت کے طور پر قبضے میں لے لی گئیں۔

پولیس ڈائریکٹر ایل آر پاچواو نے ایک نیوزکانفرنس سے خطاب میں کہا: ’’مصدقہ انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر ۔۔۔ ہم نے مہدی مسرور بسواس کو اس کے ایک کمرے کے کرائے کے گھر سے گرفتار کر لیا ہے۔‘‘

Symbolbild - Twitter
پولیس کے مطابق بسواس کئی برسوں سے ٹوئٹر پر متنازعہ اکاؤنٹ چلا رہا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/S.Stache

انہوں نے مزید بتایا: ’’اس نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ گزشتہ کئی سالوں سے شامی وٹنس ٹوئٹر اکاؤنٹ چلا رہا تھا ۔۔۔ وہ دِن میں ایک دفتر میں کام کرتا تھا جبکہ رات کے وقت انٹرنیٹ پر سرگرم رہتا تھا۔‘‘

پاچواو نے بتایا کہ بسواس بالخصوص انگریزی بولنے والے دہشت گردوں کے قریب تھا اور وہ آئی ایس گروپ کا حصہ بننے کے خواہشمند نوجوانوں کو معلومات فراہم کرنے کا ایک ذریعہ بن چکا تھا۔

انہوں نے بتایا: ’’سوشل میڈیا پر اپنے پروپیگنڈا سے اس نے آئی ایس کو شہ دی کہ وہ اپنے ایجنڈے کے تحت ایشیائی طاقتوں کے خلاف جنگ شروع کرے۔‘‘

پولیس نے بسواس پر ریاست کے خلاف جنگ کے لیے معاونت کا ابتدائی مقدمہ درج کر لیا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق بھارت میں ڈیڑھ سو ملین کی مسلم آبادی کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ اور دیگر علاقوں میں فرقہ ورانہ تنازعات کا حصہ بننے کی زیادہ مثالیں موجود نہیں ہیں۔ تاہم حال ہی میں ایک بھارتی طالب علم پر عراق سے لوٹنے پر دہشت گردی سے متعلقہ الزامات پر فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔ اس پر الزام ہے کہ وہ عراق میں جہادیوں کے لیے کام کرتا رہا۔

بسواس کی گرفتاری سے ان خدشات کو مزید ہوا ملی ہے کہ آئی ایس کے جہادی انٹرنیٹ کے ذریعے شدت پسند مسلمان نوجوانوں کو بھرتی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔