بھارتی وزیر دفاع کا دورہ کشمیر
25 اپریل 2009فوج کے سربراہ جنرل دیپک کپور اور ڈیفینس سکریٹری بھی ان کے ہمراہ ہوں گے۔ذرائع کے مطابق انٹونی راجوری اور پونچھ میں سرحد کے قریبی علاقوں کا بھی معائنہ کریں گے۔
بھارت نے ریاست جموں وکشمیر میں پاکستان کی طرف سے عسکرےت پسندوں کی دراندازی کی خبرو ں پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے اسے ریاست میں جاری جمہوری عمل کو سبوتاز کرنے کی کی سازش قرار دیا ہے۔
بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ پچھلے چند ماہ کے دوران پاکستانی عسکریت پسندوں نے بھارتی علاقوں میں دراندازی کرنے کی کوشش کی ہے۔ وزارت داخلہ نے بھی چند روز قبل تقریباً پچاس دراندازوں کے داخل ہونے کی بات کہی تھی۔ یہاں ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان دراصل اپنے داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے اور ریاست جموں و کشمیر میں جاری انتخابی عمل کو نقصان پہونچانے کے لئے اس طرح کی کارروائی کررہا ہے۔
اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس صورت حال کو سنجیدگی سے لے اورجمہوری عمل کو نقصان پہونچانے کی کسی بھی کوشش کا منہ توڑ جواب دے ۔ بی جے پی کے ترجمان پرکاش جاوڈےکر نے کہا ’’پاکستان کے حالات جس تیزی سے بگڑ رہے ہیں بھارت کے لئے یہ اچھی خبر نہیں ہے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ صورت حال پر پوری نگاہ رکھے اور مناسب قدم اٹھائے‘‘
اسی دوران فوج نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی ہے کہ طالبان کے جنگجو ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہوگئے ہیں۔ سری نگر کی پندرہویں کور کے بریگیڈئر جنرل اسٹاف بریگیڈئیر گرمیت نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ اس سال سے اب تک 56 جنگجو ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہوئے جن میں سے 31بانڈی پور کے گریز سےکٹر سے داخل ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ 32جنگجووں کو تصادم کے مختلف واقعات میں مار ڈالا گیا۔ بریگیڈئیر گرمیت نے اپنی پریس کانفرنس میں گرفتار کئے گئے ایک مبینہ پاکستانی عسکریت پسند شکیب معین اللہ شاہ کو میڈیا کے سامنے پیش کیا۔
خیال رہے حالیہ عام انتخابات کے دو مرحلوں کے دوران ریاست جموں و کشمیر کے ہندو اکثریتی علاقوں میں ووٹ ڈالئے گئے ہیں اور اب بقیہ تین مرحلوں میں نہایت ہی حساس وادی کشمیر اور لداخ اور کرگل جیسے علاقوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔
دریں اثنا بھارت میں جاری عام انتخابات کے دوران کوئی اہم موضوع نہیں ہونے کی وجہ سے سیاسی پارٹیاں پاکستان کو موضوع بنانے کی کوشش کررہی ہیں اور اس سلسلے میں ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات عائد کررہی ہیں۔
حکمراں کانگریس پارٹی بی جے پی کے اوپر پاکستان کے سلسلے میں نرم رویہ اپنانے کا الزام لگارہی ہے۔ کانگریس کے سینئر رہنما اور مرکزی وزیر کپل سبل نے کہا کہ’’لال کرشن اڈوانی اور یشونت سنہا جیسے بی جے پی کے بڑے لیڈروں نے اپنے دور اقتدار میں کہا تھا کہ وہ پاکستان سے جاری دہشت گردی اور وہاں دہشت گردی کے کیمپوں پر کارروائی کریں گے لیکن ایسا کچھ نہیں کیا۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سلسلے میں ہماری پالیسی Pre Active اور پھر Pro Active ہوگی لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کی پالیسی Inactive ہے‘‘
دراصل بی جے پی کی سب سے کمزور رگ قندھار کا معاملہ ہے جب اس کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے 1999 میں اغوا شدہ طیارے میں سوار تقرےباً دو سو یرغمال شہریوں کو دہشت گردوں کے چنگل سے بچانے کے لئے تین انتہاپسندوں کو قندھار لے جاکر رہا کیا تھا۔ تاہم بی جے پی اپنے اس اقدام کا دفاع کرتی ہے۔
بی جے پی کے ترجمان روی شنکر پرساد نے کہا ’’وہ ایک تکلیف دہ فیصلہ تھا لیکن اس وقت کانگریس پارٹی نے مطالبہ کیا تھا اور وزیر اعظم کے دفترکے سامنے ان لوگوں نے دھرنا دیا تھا کہ مسافروں کو رہا کروانے کی کارروائی کی جائے لیکن اب وہ اسے سیاسی فائدے کے لئے استعمال کررہے ہیں‘‘