1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی سیوریج سسٹم کی صفائی کے دوران موت کے بڑھتے واقعات

5 فروری 2020

بھارت میں نکاسی آب کے نظام کی صفائی کے لیے اکیسویں صدی میں بھی مشینوں کے بجائے انسانوں سے کام لیا جا رہا ہے۔ اس دوران زہریلی گیس سے دم گھٹنے کے سبب مزدوروں کی موت کی خبریں اکثر آتی رہتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3XIyR
Deutschland Unwetter in Berlin Reinickendorf
تصویر: Imago/A. Gora

حکومت موت کے ایسے ہر واقعہ پر افسوس کا اظہار اور متوفی کے کنبہ کے لیے معاوضہ کا اعلان تو کرتی ہے لیکن اس مسئلے کا حل صرف اعلانات تک محدود رہ جاتا ہے۔

سیوریج نظام کی صفائی کے دوران مزدوروں کی موت کا تازہ واقعہ قومی دارالحکومت دہلی میں تین روز قبل پیش آیا۔ جب گندے نالے کی صفائی کے دوران ایک صفائی مزدور کی موت ہوگئی اور دوسرا بری طرح بیمار ہوگیا۔

دنیا کی پانچویں بڑ ی معیشت اور سپر پاور بننے کا خواہاں بھارت میں سیوریج کی صفائی کے لیے مشینوں کا استعمال کرنے کے بجائے اب بھی انسانوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بیت الخلاء او ر دیگرجگہوں سے جمع ہونے والے گندے کچرے جب نکاسیٴ آب کے پائپوں میں پھنس جاتے ہیں تو انہیں صاف کرنے کے لیے مزدوروں کو اس کے اندر بھیجا جاتا ہے۔ یہ مزدور عام طورپر خاطر خواہ حفاظتی انتظامات کے بغیر ہی صرف ایک رسی کے سہارے گہرے گٹر میں اترتے ہیں اور اندر کی خطرناک او زہریلی گیس کبھی کبھی ان کی موت کی وجہ بن جاتی ہے۔

Bildergalerie - Die seltsamsten Berufe der Welt
یورپ میں گٹر میں اترنے والا ورکر تمام حفاظتی انتظام کے ساتھ ہوتا ہےتصویر: Fotolia/Tom Wang

صفائی ملازمین کی تنظیم ’صفائی کرمچاری آندولن‘ کے سربراہ اور  رامون مگسائے سائے ایوارڈ یافتہ بیجواڑا  ولسن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا ”مسئلہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں سپریم کورٹ کی گائیڈلائنز پر سنجیدگی سے عمل نہیں کر رہی ہیں۔ دونوں ہی حکومتیں سپریم کورٹ کے احکامات کا احترام نہیں کر رہی ہیں۔“

بجواڑا کہتے ہیں کہ دوسرے شہروں کی تو بات ہی جانے دیں قومی دارالحکومت نئی دہلی میں بھی صورت حال درست نہیں ہے۔”دہلی میں سیور لائن کئی کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہیں۔ دہلی جیسے بڑے شہر کے لیے حکومت کو وسیع منصوبہ بنانا ہوگا تاکہ سیوریج لائن میں اس طرح کے حادثے نہ ہوں‘‘۔

بجواڑا کے مطابق دونوں حکومتوں کے لیے دلتوں کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ سرکاری تو سیوریج میں ہونے والی موت کی بھی ذمہ داری نہیں لیتی اور وہ ٹھیکیدار کو ہی اس کے لیے مورد الزام ٹھہرا دیتی ہے۔ صفائی کرمچاری آندولن کے مطابق سیوریج اور سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کرتے وقت گزشتہ دس برسوں کے دوران 1876مزدوروں کی موت ہوچکی ہے۔

GMF Klick! Fotowettbewerb 2011, Drinking Water for All
سیوریج پائپ لائن سے پلاسٹکی بوتل گندہ پانی بھرتے بچےتصویر: Monowara Begumi

مزدوروں کے ذریعہ سیوریج کی صفائی کرانے کے خلاف ایک عرصے سے تحریک جاری ہے۔ عدالت کی سختی کے بعد بلدیاتی اداروں اور سرکاری ایجنسیو ں نے مشینیں تو خریدلیں لیکن اس کے باوجود ٹھیکیدار مزدوروں سے ہی نکاسیٴ آب کی صفائی کا کام کرواتے ہیں۔

بجواڑا ولسن کہتے ہیں ”جب حادثہ ہوجاتا ہے تو حکومت معاوضہ دینے کے لیے تو پہنچ جاتی ہے لیکن جو لوگ ہمیں سکون کے ساتھ زندگی گذارنے میں مدد کررہے ہیں ان کی زندگی کی سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ملک میں دلتوں کو محفوظ زندگی گذارنے کے حق کو حکومت پوری طرح نظر انداز کررہی ہے۔ ہم نے سیور میں ہونے والی ہر موت کی رپورٹ حکومت کو دی ہے۔“

بھارت میں انسانوں کے ذریعہ غلاظت کی صفائی کے کام کو ختم کرنے اور اس پر پابندی عائد کرنے سے متعلق پہلا قانون سن 1993 میں اور دوسرا قانون سن 2013میں بنایا گیا۔ سن 2013کے مینول اسکیوینجنگ قانون کے تحت کسی بھی آدمی کو سیوریج میں بھیجنا پوری طرح ممنوع ہے۔

جاوید اختر، نئی دہلی