1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی جمہوریت کی موت، تبصرہ

9 جنوری 2020

نئی دہلی کی جواہرلعل نہرو یونیورسٹی روشن خیالی کی آئینہ دار ہے۔ نقاب پوش حملہ آوروں کے طلبہ پر حملے بھارت کی سیکولر فورسز کو خاموش کرانے کی ایک کوشش ہیں۔ ڈی ڈبلیو شعبہ ایشیا کی سربراہ دیبارتی گُوہا کا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/3Vvuw
Solidarität mit JNU Studenten Proteste
تصویر: DW/S. Bandopadhyay

نئی دہلی کی جواہرلعل نہرو یونیورسٹی بھارت کے اہم ترین تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے۔ یہ تعلیمی ادارہ جنوبی ایشیا کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کا ایک خواب تھا۔ وہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (JNU)  کو معیار اور مساوات کے اعتبار سے ایک عمدہ تعلیمی ادارہ دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ اس جامعہ میں ملک بھر کے تمام علاقوں بشمول پسماندہ ریاستوں کے نوجوان تعلیم حاصل کریں۔

دہلی میں موجود سفارت کاروں کو کشمیر لے جانے کی دعوت

بھارت: ملک گیر ہڑتال سے معمولات زندگی متاثر

مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں پہلی بار بہ طور طالب علم اس جامعہ میں داخل ہوئی اور ایک چھوٹی سی پگنڈنڈی سے ہوتی ہوئی مرکز برائے سوشل سائنسز پہنچی۔ اس راستے پر ایک برگد کا پرانا درخت تھا، جس کی چھاؤں میں رومالیا تھاپر، سودیپتا کاوریراج، راجیو بھرگاوا حتیٰ کہ ملک کے نوبل انعافتہ اسکالر ابھیجیت بنرجی جیسے دانش ور بیٹھا کرتے تھے۔

میرے ساتھی طلبہ بتایا کرتے تھے کہ جب سابقہ وزیراعظم اندھرا گاندھی نے ستر کی دہائی میں ملک میں ہنگامی حالت نافذ کی، تو کس طرح یہاں احتجاج ہوا کرتا تھا یا کس طرح سن 1984 میں فسادات کے دوران  یہاں کے طلبہ نے سکھوں کا تحفظ کیا تھا۔ خود مجھے بھی اس جامعہ میں اپنے مختصر قیام کے دوران کئی مرتبہ مختلف مواقع پر بھوک ہڑتالی احتجاج میں شرکت کا موقع ملا۔

میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہاں حملہ آور، لاٹھیوں اور پتھروں سے مسلح، دن دیہاڑے یونیورسٹی کے کیمپس میں داخل ہو کر طلبہ اور اساتذہ پر حملے کریں گے۔

Indonesien Eco-Islam-Konferenz in Jakarta | Debarati Guha, Head of DW Asia services
تصویر: DW/A. Tauqeer

دانش وروں اور عوام کے درمیان بڑھتی خلیج

یہ خوف ناک صورت حال ہے کہ بھارتی جامعات، بہ شمول جے این یو، ملک میں نظریاتی اختلافات کا مرکز بن چکی ہیں جب کہ حکومت مخالفین کے خلاف دائیں بازوں سے تعلق رکھنے والے گروہ 'وطن پرستی کے کارڈ‘ استعمال کر رہے ہیں۔

جے این یو کو مسلسل حکومت مخالف سرگرمیوں کو ہوا دینے کے الزامات کا سامنا ہے۔ اس کی ایک وجہ پولیس کا غیر فعال ہونا ہے اور جنوری کی پانچ تاریخ کو جامعہ کے سیکولر طلبہ پر اکھیل بھارتیہ ودیاراتھی پریشاد AVBP، جو راشتریا سوایام سیوِک سَنگھ یا آر ایس ایس کا اسٹوڈنٹ وِنگ ہے، پر تشدد اسی کا شاخ سانہ ہے۔

نقاب پوش حملہ آوروں کا موقف تھا کہ ان کا یہ حملہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف متحدہ محاذ کی ایک کارروائی ہے۔ یہ حملہ ان پرامن طلبہ پر کیا گیا، جو فیسوں میں اضافے اور ملک میں مسلمانوں کے ساتھ تفریق پر مبنی متنازعہ نئے شہریت قانون کے خلاف مظاہرے میں مصروف تھے۔

بھارت میں دانش وروں اور عام افراد کے درمیان خلیج میں واضح اضافہ ہوا ہے اور اس سے ملک کی سیکولر اقدار اور دستوری جمہوریت خطرات کا شکار ہے۔

بھارت میں ان واقعات میں اضافے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ بی جی پی حکومت ملک کی سیکولر اقدار کو کم زور کر رہی ہے، بلکہ اہم وجہ یہ ہے کہ عام افراد گزشتہ کچھ برسوں میں سیکولرازم کے خلاف ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ کیوں کہ ملک میں دانش ورانہ ثقافتی فضا کم زور پڑ رہی ہے اور سیاسی اخلاقیات پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔

بھارتی جمہوریت مفلوج ہو سکتی ہے

میرے خیال میں حکومت کی جانب سے مسلم مخالف اقدامات کے تناظر میں حکومت کو نہ صرف سخت گیر ہندو عناصر کی حمایت حاصل ہو رہی ہے، بلکہ متوسط طبقے میں بھی یہ سوچ دھیرے دھیرے پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ ملک میں اینٹی سیکولر پروپیگنڈ اکی وجہ سے بہت سے ''لبرل ہندو‘  قوم پرست ہندوؤں سے خوف کا شکار ہو رہے ہیں۔

یہ رجحان دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت کو مفلوج کر سکتا ہے۔ بھارت میں سیکولر افراد کو چاہیے کہ وہ مشترکہ طور پر انتہاپسند قوتوں کا راستہ روکیں۔ بھارت کا مستقبل موجودہ حکومت کے دور میں خطرات کا شکار ہے مجھے خدشات ہیں کہ اگر اپوزیشن جماعتیں دوبارہ اقتدار میں آ گئیں، تو بھی بی جے پی کی انتہائی دائیں بازو کی پالیسیوں کے خاتمے میں انہیں مشکلات کا سامنا ہو گا۔

دیبا رتی گوہا، ع ت، ب ج