1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی افواج میں اصلاحات کی اشد ضرورت

30 جولائی 2021

بھارتی افواج کے اعلیٰ عہدیداروں کی گزشتہ ہفتے ایک اہم میٹنگ ہوئی جس میں انہوں نے آرمی، نیوی اور ایئر فورس کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات پرزوردیا تاکہ یہ مستقبل کے چیلنجز کا سامنا کرسکیں۔

https://p.dw.com/p/3yJPd
Indien Tag der Republik
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup

بھارت میں نریندر مودی حکومت موجودہ سترہ سنگل سروس یونٹوں کو پانچ 'تھیئٹر کمانڈ‘  کے تحت لانا چاہتی ہے تاکہ مستقبل میں کسی طرح کے تصادم سے بچنے کے لیے ایک متحدہ اپروچ اختیار کیا جاسکے۔ تاہم اطلاعات کے مطابق نئے ڈھانچے اور اس کے دائرہ اختیار کے سلسلے میں تینوں افواج کے سربراہوں کے درمیان اختلافات ہیں۔

گزشتہ ماہ بھی ایسی خبریں آئی تھیں کہ مجوزہ اصلاحات کے سلسلے میں بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت اور فضائیہ کے سربراہ راکیش کمار سنگھ بھدوریا کے درمیان ہونے والی میٹنگ میں دونو ں کا لہجہ کافی سخت ہوگیا تھا۔

جنرل راوت کو 'تھیئٹرکمانڈ‘  تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ انہوں نے دو جولائی کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارتی فضائیہ، مسلح افواج کے'ایک معاون بازو‘ کے طور پر رہے گا۔ بھارتی میڈیا کی خبروں کے مطابق فضائیہ متحدہ کمان کے متعلق اصلاحات سے متفق نہیں ہے۔

Indien Armee Bipin Rawat
بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوتتصویر: Imago/ZUMA Press

اصلاحات ضروری ہیں

 ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج کا بنیادی ڈھانچہ 'کمزور‘ ہے، یہ مستقبل کے چیلنجز کے لیے تیار نہیں ہے، لہذا بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔

بھارتی افواج کے بنیادی ڈھانچے میں مکمل تبدیلی کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جارہی ہے۔ پاکستان اور چین کی طرف سے سرحد پر کشیدگی کے مدنظر ان اصلاحات کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ 

یہ بھی پڑھیں:فنڈ کی کمی کے سبب بھارتی بحریہ کا توسیعی منصوبہ متاثر

اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کے امور پر تحقیق کرنے والے ارزان تاراپور نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”یہ اصلاحات ایک عرصے سے ضرورت ہیں، بھارتی فوج پرانے ڈھانچے اور پرانی فکر کے ساتھ ہی چل رہی ہے جو کسی نئے تنازع کے پیدا ہونے کی صورت میں کارگر ثابت نہیں ہوگا۔"

بھارتی وزارت دفاع کے سابق مالیاتی مشیر امیت کاوشش کا کہنا ہے کہ بھارت کی سکیورٹی کو درپیش خطرات کی شکلیں مسلسل بدل رہی ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے امیت کاوشش کا کہنا تھا،”جیسا کہ ہم نے گزشتہ برس لداخ میں دیکھا، چین کے ساتھ سرحدی تنازعات نے نئی صورت اختیار کرلی ہے، چین انڈین بحرالکاہل میں بھی اپنی رسائی بڑھا رہا ہے اور بھارت کے پڑوسی ملکوں میں بھی اس کی پہنچ میں اضافہ ہورہا ہے۔"

یہ بھی پڑھیں:فنڈ کی کمی کے سبب بھارتی بحریہ کا توسیعی منصوبہ متاثر

Indien feiert Tag der Republik mit Francois Hollande
ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ بھارت کا پرانے طرز کا فوجی ڈھانچہ مستقل کی جنگوں میں موثر ثابت نہیں ہوگاتصویر: picture alliance / B. Armangue

جدید ٹیکنالوجی سے نئے خطرات

بھارتی فوج کو ٹیکنالوجی میں ہونے والی جدید ترقی سے بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔ سابق کرنل اور بھارتی تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انالسیز میں ریسرچ فیلو وویک چڈھا کے مطابق ڈرون کو تو اب ایک سستا متبادل سمجھا جارہا ہے، انہو ں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”اسی طرح سائبر حملہ کرنے کے لیے جتنی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے وہ روایتی ہتھیاروں کے مقابلے میں برائے نام ہے۔"

ارزان تاراپور کے مطابق ”ڈرون تو ابھی محض آغاز ہیں، آنے والے عشروں میں جو خطرات سامنے آنے والے ہیں وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر ترقی کے ساتھ آئیں گے، جن کا تعلق جنگوں سے ہوگا۔ ہر چیز جو متاثر ہوسکتی ہے اسے آرٹیفیشئل انٹیلی جنس اور مشین لرننگ کے ذریعہ درست کیا جاسکتا ہے۔"

Kaschmir Unruhen
تصویر: Imago/Zuma Press

علاقائی سکیورٹی میں بھارت کا رول

ماہرین کہتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں علاقائی سکیورٹی میں بھارت کے رول میں اضافہ ہوگا۔ ارزان تاراپور کے مطابق ”بھارت اس خطے میں ایک سکیورٹی فراہم کرنے والے کا رول ادا کرے گا، یہ بنیادی طور پر فوج کے لیے غیر عسکری رول ہوگا، جس میں انسانی امداد،  ڈیزاسٹر ریلیف اور علاقے میں روایتی تدارک برقرار رکھنے جیسے کام شامل ہیں۔"

تاراپور تسلیم کرتے ہیں کہ بھارتی فوج اب بھی ایسے رول ادا کرتی ہے لیکن آنے والے دنوں میں خطے کے ممالک نیز امریکا اور آسٹریلیا سے ایسی ضرورتیں اور مانگ بڑھنے والی ہیں تاکہ ایسے زیادہ سے زیادہ مشنز انجام دیے جا سکیں۔

تارپور کہتے ہیں،”بھارت نے اپنی فوج کو مختلف اسباب کی بنا پراب تک زمینی سکیورٹی کے لیے تیار کیا ہے۔ لیکن اب یہ صورت حال تبدیل ہونے والی ہے۔"

یہ بھی پڑھیں:چین سے خطرہ برقرار ہے، بھارتی فوجی سربراہ

اگر پڑوسی ملک افغانستان میں خانہ جنگی ہوتی ہے تو اس کے مضمرات بھارت کی سکیورٹی اور بالخصوص کشمیر پر پڑیں گے۔

امیت کاوشش کہتے ہیں،”پاکستان اپنے حساب سے طالبان کے ساتھ کسی طرح کا تال میل کر پاتا ہے یا نہیں یہ اپنی جگہ ہے لیکن اس کا بھارت پر اثر پڑے گا۔ بھارت کے طالبان کے قریب آنے کے امکانات کم ہی ہیں۔"

کاوشش کا کہنا تھا کہ کسی طرح کا معاہدہ بھلے ہی ہو جائے لیکن طالبان کے نظریات سے بھارت کا متفق ہونا مشکل ہے لہذا کبھی نہ کبھی یہ ایک خطرہ تو بن ہی سکتا ہے۔

IWMF 2020 Preisträgerin Masrat Zahra, Fotojournalistin | Bild aus Kaschmir, Indien, 2018
تصویر: picture-alliance/Zuma/Masrat Zahra

نئے جدید اسلحے کی ضرورت

ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ بھارت کا پرانے طرز کا فوجی ڈھانچہ مستقل کی جنگوں میں موثر ثابت نہیں ہوگا۔  ریٹائرڈ کرنل وویک چڈھا کہتے ہیں،”بھارت کی فوج روایتی جنگ اور دہشت گردی وغیرہ کے خلاف لڑنے کے لیے پوری طرح تیار ہے، جو وہ ستر برسوں سے کرتی رہی ہے۔ لیکن سوال ہے کہ کیا وہ  نئے ابھرتے خطرات کے لیے بھی تیار ہے؟"

یہ بھی پڑھیں:کشمیر: بھارتی فوج میں خودکشی کے بڑھتے واقعات

امیت کاوشش کہتے ہیں کہ بہتر ہتھیاروں سے لے کر سکیورٹی اسٹریٹیجی تک، بھارت کی فوج کو اصلاحات کی ضرورت ہے۔ وہ بتاتے ہیں،”بھارت کی فوج کے بیشتر ہتھیار اور پلیٹ فارم بیکار ہوچکے ہیں، افواج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، سب سے بڑا چیلنج مالی لحاظ سے ایک قابل عمل منصوبے کی ہے جس کے ذریعہ فوج کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جاسکے۔

 ج ا/ع ح (دھاروی وید)