1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت:’کنفیشن‘ کی مسیحی مذہبی روایت پر پابندی کی سفارش

جاوید اختر، نئی دہلی
27 جولائی 2018

بھارت میں قومی خواتین کمیشن نے گرجا گھروں میں مسیحی خواتین کے ذریعہ پادریوں کے سامنے کنفیشن یا اعتراف کی مذہبی روایت پر پابندی لگانے کی حکومت سے سفارش کی ہے۔ مسیحی تنظیموں نے اس سفارش پر شدید احتجاج کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/32Cay
Symbolbild Kirche Abtreibung Beichte
تصویر: picture-alliance/picture alliance/Godong/R. Harding

بھارت کے قومی خواتین کمیشن کا کہنا ہے کہ کنفیشن کی مذہبی روایت کا غلط استعمال ہورہا ہے۔ خواتین کو بلیک میل کیا جارہا ہے اور یہ خواتین کے تحفظ اور سلامتی کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔ دوسری طرف مسیحی تنظیموں نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اسے مذہبی امور میں مداخلت اور ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی ہندو قوم پرست جماعت کی قیادت والی حکومت کی جاری کوششوں کا حصہ قرار دیا ہے۔

قومی خواتین کمیشن کو بھارت میں آئینی ادارہ کا درجہ حاصل ہے۔ کمیشن کی چیئر پرسن ریکھا شرما نے ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی نریندر مودی حکومت کو باضابطہ خط لکھ کر کنفیشن کی روایت کو ختم کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا ’’پادری خواتین پر خفیہ باتیں بتانے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ ہمارے سامنے آیا ہے۔ یہ تو محض ابتدا ہے۔ ایسے اور بھی معاملات ہوسکتے ہیں اور کنفیشن کرنے والی خواتین کو بلیک میل کیا جاسکتا ہے۔‘‘

Beichtstuhl Kirche
تصویر: picture-alliance/ dpa

کمیشن کی چیئرمین نے وفاقی حکومت سے اس معاملے میں مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین کی سلامتی کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔

ریکھا شرما کا کہنا ہے کہ مسیحی خواتین کے ساتھ زیادتی کے دو معاملات سامنے آچکے ہیں۔ ایک کیرل کا اور دوسرا پنجاب کا ہے۔ انہوں نے ان معاملات کی بھارت کی مرکزی تفتیشی ایجنسی (سی بی آئی) سے انکوائری کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایجنسی اس بات کا بھی پتہ لگائے کہ ایسے اور کتنے معاملات ہیں۔

ریکھا شرما کا دعوی ہے کہ ان کی سفارش کسی مذہب کے داخلی معاملے میں مداخلت نہیں ہے بلکہ یہ عورتوں کی سلامتی کا معاملہ ہے اور قومی خواتین کمیشن اس حوالے سے ہر ممکن قدم اٹھائے گی۔ خیال رہے کہ بھارت میں خواتین کمیشن جیسی دیگر کمیشنوں میں بالعموم حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہی نامزد کیا جاتا ہے۔ ریکھا شرما وزیر اعظم نریندر مودی سے قریبی تعلقات کا دعوی کرتی رہی ہیں اور وہ کمیشن کا چیئرمین نامزد کیے جانے سے قبل بی جے پی کی ہریانہ ریاستی یونٹ کی میڈیا انچارج تھیں۔

دوسری طرف مسیحی تنظیموں نے قومی خواتین کمیشن کی سفارش پر سخت اعتراض کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ مسیحی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ چرچ کے اختیارات اور آزادی پر براہ راست حملہ ہے کیوں کہ کنفیشن کا معاملہ اعتقاد سے جڑا ہوا ہے،’’جو لوگ خدا پر یقین رکھتے ہیں وہ اس رسم میں حصہ لیتے ہیں اور اس رسم کی اہمیت کو صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جو خدا کو مانتے ہیں۔‘‘

آل انڈیا کرسچن کونسل کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر جون دیال نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’کمیشن کو کسی مذہب کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا ہے اور اگر کمیشن کو مسیحی خواتین سے اتنی ہمدردی ہے تو وہ ملک بھر میں زیادتی کا شکار ہونے والی مسیحی خواتین کا معاملہ کیوں نہیں اٹھاتا، جیلوں میں بند بے گناہ خواتین کی رہائی کی کوشش کیوں نہیں کرتا ۔‘‘

ڈاکٹر دیا ل کا مزید کہنا تھا،’’ کیرل کے صرف ایک واقعہ کی آڑ لے کر مسیحیت کو بدنام کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ یہ اسی طرح کا سیاسی ایجنڈا ہے جیسا کہ تین طلاق کے نام پر پورے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔‘‘

ڈاکٹر جون دیال کا کہنا تھا کہ کنفیشن کرنے والوں میں پچاس فیصد مرد بھی ہوتے ہیں۔ اگر بھارت کی تین کروڑ مسیحی آبادی میں ایک ناخوشگوار واقعہ ہوا ہے تو اسے رائی کا پہاڑ بنا کر کیوں پیش کیا جارہا ہے۔ حالانکہ پولیس نے ابھی تک ملزموں کے خلاف کوئی معاملہ بھی درج نہیں کیا ہے،’’ اگر حکومت نے کنفیشن کو بند کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا تو پوری مسیحی برادر سڑکوں پر آجائے گی اور ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔‘‘

دراصل یہ ہنگامہ اس وقت شروع ہوا، جب کیرل کی ایک مسیحی خاتون کا ایک پادری کے سامنے کنفیشن  کرنے اور مذکورہ پادری اور بعد میں اس کے چار ساتھیوں کے ذریعہ برسوں تک اس خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا معاملہ منظر عام پر آیا۔ کہا جارہا ہے کہ مسیحیت کی دو ہزارسال کی تاریخ میں یہ شاید پہلا معاملہ ہے جب کنفیشن کی رازداری کے قانون کو طاق پر رکھ کر چرچ کے ایک قابل احترام پادری نے ایسی حرکت کی۔

St. Sebastian Kirche in Neu Delhi
تصویر: Florent Martin
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید