1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت گائیوں کو بائیو میٹرک طرز پر شناختی نمبر الاٹ کرے گا

صائمہ حیدر مرالی کرشنا
19 فروری 2018

بھارتی حکومت کے گائیوں اور بھینسوں کو بائیو میٹرک طریقہ کار پر مبنی منفرد شناختی نمبر دینے کے اقدام پر ملک میں کئی طبقے سوال اٹھا رہے ہیں۔ کیا مویشیوں کی شناخت کا یہ طریقہ واقعی موثر ثابت ہو گا؟

https://p.dw.com/p/2svEn
Indien Schmuggel RInder Markt
تصویر: Shaikh Azizur Rahman.

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کا گائیوں کو تحفظ دینے کا رحجان ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ مودی کی بھارتی جنتا پارٹی اور اس کے انتہا پسند ہندو اتحادیوں کی جانب سے گائیوں کی حفاظت گزشتہ سالوں میں ملک کے اہم ترین مسائل میں سے ایک موضوع رہا ہے۔

گائیوں کے محافظین اور دائیں بازو کے ہندو گروپوں نے بھی ان مویشیوں سے برا سلوک کرنے کے شبے میں لوگوں پر حملے کیے اور اس طرح توجہ کا مرکز بنے۔

اس پس منظر میں اس ماہ کے آغاز میں بھارت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی کی جانب سے پیش کیے جانے والے سالانہ بجٹ میں ملکی گائیوں کو شناختی نمبر الاٹ کرنے کے لیے لاکھوں کی خطیر رقم مخصوص کرنے کی تجویز حیران کن نہیں تھی۔

گائے کے ہندو محافظوں کے ہاتھوں ایک مسلمان ہلاک، دوسرا زخمی

نئی دہلی حکومت کے اس مجوزہ منصوبے کے تحت چالیس لاکھ مویشیوں کو بارہ عددی شناختی نمبر دینے کی مد میں قریب سات ملین ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ منفرد شناختی نمبر دینے کا طریقہ کار بالکل ویسا ہی ہو گا جیسا کہ ’اَدھار‘ نامی قومی شناختی کارڈ اسکیم میں اپنایا گیا ہے۔ اگر یہ اسکیم کامیاب ہوتی ہے تو پھر ملک کی تین سو ملین گائیوں اور بھینسوں کی نگرانی کے لیے مزید فنڈ بھی مختص کیے جائیں گے۔

اس منصوبے کی تائید میں کئی ایک وجوہات فراہم کی گئی ہیں۔ مثلاﹰ یہ کہ اس طرح ملکی مویشیوں کا پتہ رکھا جا سکے گا، انہیں اسمگل ہونے سے بچایا جا سکے گا اور لاوارث گائیوں اور بھینسوں کے لیے مراکز کا انتظام بھی ہو گا۔

اس منصوبے کے حامیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گائیوں کی منفرد شناخت مستقبل میں اُن کی نسل بہتر بنانے کے بھی کام آئے گی اور اس سے ان مویشیوں کی کراس بریڈنگ میں مدد ملے گی۔

بھارتی حکومت کی توجہ تاہم محض گائیوں کی حفاظت اور شناختی نمبر تک ہی محدود نہیں ہے۔ گزشتہ برس بھارتی حکومت نے گائے کے پیشاب اور اس سے حاصل کردہ دیگر فوائد پر سائنسی ریسرچ کے لیے انیس افراد پر مشتمل ایک پینل بھی تشکیل دیا تھا۔ اس پینل میں بی جے پی کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے بھی تین ارکان شامل تھے۔

’گائے کا تحفظ‘: دو مسلمانوں کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا

تاہم اس مجوزہ منصوبے کے ناقدین کو خدشہ ہے کہ گائیوں کی حفاظت کے بہانے اس اسکیم کو ملک کی محروم برادریوں اور اقلیتوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔

دہلی کے ایک ڈیری کسان رشید خان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ آخر میں یہ صرف الزام تراشی اور ایذا رسانی کا ذریعہ بن جائے گا۔ آنے والے سالوں میں اقلیتوں کے خلاف پر تشدد کارروائیاں مزید بڑھ جائیں گی۔‘‘

Indien Hindu-Frau füttert Kühe
تصویر: Getty Images/AFP/D. Faget

انڈین کمیونسٹ پارٹی کے ڈی راجہ کا کہنا تھا،’’ ملک میں مسلمانوں کے خلاف گائے سے متعلق پر تشدد حملوں کا ایک سلسلہ رہا ہے۔ ان مویشیوں کو ضبط کرنے والے انتہا پسند ہندو ایک نجی ملیشیا کے طور پر کام کر رہے ہیں اور اس سلسلے کو اب رکنا چاہیے۔‘‘

بعض ناقدین کا مودی حکومت اور بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایسے وقت میں جبکہ ملک کو ترجیحی طور پر پہلے حل کیے جانے والے سماجی و اقتصادی مسائل کا سامنا ہے، حکومت نے غلط ترجیحات اپنا رکھی ہیں۔

بھارت کی قريب 1.3 بلين کی آبادی ميں مسلمانوں کا تناسب چودہ فيصد ہے۔ اکثريتی طور پر ہندو ملک بھارت ميں گائے کو ايک مقدس جانور مانا جاتا ہے۔ ملک کے کئی حصوں ميں گائے کے گوشت کی فروخت اور اسے غذاء کے طور پر استعمال کرنے پر پابندی عائد ہے۔ قوم پرست جماعت بھارتيہ جنتا پارٹی کے وزير اعظم نريندر مودی کے دور حکومت ميں مسلمانوں کے خلاف حملوں ميں کافی اضافہ ديکھا گيا ہے، جس کی نہ صرف بھارت ميں بلکہ بين الاقوامی سطح پر بھی کافی مذمت کی جاتی ہے۔