بھارت کے لئے امریکی حمایت ناقابل فہم ہے، پاکستان
11 نومبر 2010اس قرارداد میں اسلام آباد کی طرف سے پاکستان کے دیرینہ حریف پڑوسی ملک بھارت کے لئے سلامتی کونسل کی مستقل رُکنیت کی امریکی حمایت پر گہری تشویش اور مایوسی کا اظہار کیا گیا۔ قبل ازیں دفتر خارجہ سے جاری کئے گئے ایک بیان میں پاکستان نے اپنےخدشات کا کھل کر اظہار کیا تھا اور سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر نے اس بارے میں امریکی سفیر کیمرون منٹر کو اپنی تشویش سے مطلع بھی کیا تھا۔ وفاقی کابینہ کی قرارداد میں کہا گیا، ’ امریکہ کی طرف سے ایک ایسی ریاست کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کی حمایت، جس کا اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کے احترام کا ریکارڈ بہت اچھا نہیں ہے، ناقابل فہم ہے۔‘
رواں ہفتے کے آغاز پر بھارت کے دورے پر گئے ہوئے امریکی صدر با راک اوباما نے نئی دہلی میں پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ’بھارت خود کو ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے منوا چکا ہے۔ اسی لئے میں یہ پیشگی طور پرکہنا چاہتا ہوں کہ میں سلامتی کونسل میں اصلاحات کا منتظر ہوں جس میں بھارت ایک مستقل رکن کی حیثیت سے شامل ہوگا۔‘
نئی دہلی پارلیمان میں اوباما کے اس بیان کو بے حد سراہا گیا۔ پاکستانی کابینہ کی جانب سے قرار داد ایک خصوصی اجلاس میں پیش کی گئی جس کی صدارت وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کی۔ کابینہ نے کہا کہ بھارت سلامتی کونسل کی جموں و کشمیر سے متعلق قرارداد کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور کشمیری عوام کو ایک منصوبے کے تحت منظم طریقے سے استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
کابینہ میں یہ بھی کہا گیا کہ کئی دہائیوں سے کشمیری عوام کو ریفرنڈم کے ذریعے ملنے والے حق رائے دہی سے محروم رکھا گیا ہے جبکہ انہیں بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے کا یہ حق سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت دیا جانا چاہیے۔ تاہم اس پر اب تک عملدر آمد نہیں ہوا ہے۔
پاکستان نے کہا ہے کہ بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دینے کا فیصلہ اقوام متحدہ کے نظام کو کمزور کرے گا جبکہ جنوبی ایشیا کی سلامتی کے لئے ایک خطرہ ثابت ہوگا۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: ندیم گِل