1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کی چین کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش

افسر اعوان22 جنوری 2015

امریکی صدر باراک اوباما ایک ایسے وقت پر بھارت کا دورہ کر رہے ہیں جب بھارت علاقائی سطح پر اپنے سب سے بڑے حریف ملک چین کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ سری لنکا میں حکومت کی تبدیلی اسی تناظر میں دیکھی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1EOvT
تصویر: AFP/Getty Images/Ye Aung Thu

سری لنکا میں منعقد ہونے والے حالیہ انتخابات میں صدر راجا پاکشے کو میتھری پالا سری سینا کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پیشرفت کو چین کی طرف سے جنوبی ایشیا میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران چینی اثر ورسوخ کے لیے سب سے بڑا دھچکہ جبکہ چین کے لیے انتہائی اہم سفارتی فتح سمجھا جا رہا ہے۔

نئی دہلی کی طرف سے غیر جانبداری کے دعووں کے باوجود علاقے میں موجود سفارت کاروں اور سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ بھارت نے چین نواز راجا پاکشے کی حکومت کے خاتمے کے لیے اپوزیشن کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

راجا پاکشے کے بعد صدارت کا عہدہ سنھبالنے والے میتھری پالا سری سینا یہ کہہ چکے ہیں کہ بھارت ان کی خارجہ پالیسی کا پہلا اہم جزو ہو گا اور یہ کہ وہ چین کمپنیوں کو دیے جانے والے تمام پراجیکٹس پر نظر ثانی کریں گے۔ انہی میں دارالحکومت کولمبو میں چینی تعاون سے شروع کیے جانے والے اہم منصوبے بھی شامل ہیں جن کی بدولت چین کو بھارت کے خلاف اس کے قریب ہی اہم اسٹریٹجک مقام تر رسائی مل سکتی ہے۔

اوباما پیر 27 جنوری کو مودی کے پروگرام ’من کی بات’ میں شرکت کریں گے
اوباما پیر 27 جنوری کو مودی کے پروگرام ’من کی بات’ میں شرکت کریں گےتصویر: Reuters/Larry Downing

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے گزشتہ برس عنان حکومت سنبھالنے کے بعد سے بھارت چین کے خلاف دیگر مقامات پر بھی سفارتی کامیابیاں حاصل کر چکا ہے۔ انہی میں جاپان اور ویت نام کے ساتھ تعلقات کا فروغ بھی شامل ہے۔ یہ دونوں ممالک بیجنگ حکومت کے ساتھ علاقائی تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف بھارت بنگلہ دیش میں ایک بندرگاہ کی تعمیر کے منصوبے کے حصول کی بھی کوشش میں ہے جو دوسری صورت میں چین کے لیے انتہائی آسان ہدف ہو سکتا تھا۔

مودی اپنی نئی سفارت کاری کو ’ایکٹ ایسٹ‘ کا نام دیتے ہیں جو واشنگٹن حکومت کے لیے یقیناﹰ اطمینان کا باعث ہے جو ایک عرصے سے اس کوشش میں تھی کہ بھارت امریکا کے ساتھ مل کر علاقائی سطح پر زیادہ فعال اسٹریٹیجک کردار ادا کرے۔ ظاہر ہے امریکی حکومت کی اس خواہش کے پیچھے چین ہی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے علاقائی اثر و رسوخ کے آگے بند باندھنا ہے۔

بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریب میں اوباما کی شرکت

امریکی صدر باراک اوباما کا دورہ بھارت اتوار 26 جنوری سے شروع ہو رہا ہے۔ وہ اسی روز منائے جانے والے بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوں گے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اوباما اس موقع پر اس خطے میں محض بھارت ہی کا دورہ کر رہے ہیں جس کے بعد وہ واپس واشنگٹن روانہ ہو جائیں گے۔ امریکی صدارتی دورے کے حوالے سے یہ ایک غیر معمولی بات ہے ورنہ عام طور پر امریکی صدر کسی ایک خطے کے دورے کے دوران متعدد ممالک کا دورہ کرتا ہے۔

اپنے تین روزہ دورے کے دوران امریکی صدر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک خصوصی ریڈیو پروگرام میں بھی شرکت کریں گے۔ بھارت انتظامیہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ باراک اوباما پیر 27 جنوری کو مودی کے پروگرام ’من کی بات’ میں شرکت کریں گے۔ اس پروگرام میں بھارتی وزیراعظم عام طور پر داخلی معاملات پر گفتگو کرتے ہیں۔

اپنی اہلیہ مشیل اوباما کے ساتھ بھارت کے دورے پر پہنچنے والے باراک اوباما ممکنہ طور پر آگرہ میں واقع تاج محل کا دورہ بھی کریں گے۔