1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت ڈبلیو ایچ او سے برہم کیوں ہے؟

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
4 فروری 2021

بھارت کا کہنا ہے کہ اس کے سخت اعتراض کے بعد عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اپنی ویب سائٹ پر بھارتی نقشے سے متعلق وضاحت نامہ جاری کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3os5j
Indien Unabhängigkeitstag Feier
تصویر: Getty Images/AFP/A. Shankar

بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی مختلف ویب سائٹوں پر بھارت کا جو نقشہ موجود ہے اس میں اس کی سرحدوں کو 'غلط' طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس بارے میں متعدد بار سخت اعتراضات کے بعد اب عالمی ادارہ صحت نے اپنی ویب سائٹ پر اس حوالے سے ایک وضاحتی بیان شائع کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او کی مختلف ویب سائٹوں پر بھارت کا جو نقشہ اس وقت موجود ہے اس میں بھارت کے زیر انتظام خطہ کشمیر اور لداخ کو بھارت کا حصہ دکھانے کے بجائے، ایک الگ علاقہ دکھا یا گیا ہے اور اسی پر بھارت کو سخت اعتراض ہے۔

بھارتی موقف

اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے بھارت کے نائب وزیر داخلہ مرلی دھرن نے کہا، ''عالمی ادارہ صحت کی ویب سائٹوں پر بھارت کے غلط نقشے کے معاملے کو ڈبلیو ایچ او کے ساتھ اعلی سطح پر بہت سختی سے اٹھا یا گیا ہے۔ اس کے جواب میں ادارے نے جینیوا میں بھارتی مشن کو آگاہ کیا ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے اپنی ویب سائٹ پر ایک وضاحتی بیان بھی شائع کیا ہے۔''

 ان کے مطابق اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ''کسی بھی ملک، علاقے یا پھر خطے سے متعلق ایسے مواد کی پیشکش کا مطلب، اس کی سرحدوں یا پھر علاقائی سالمیت کو قانونی جواز فراہم کرنا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ متعلقہ نقشوں پر نقطے دار لکیریں مکمل طور پر نہیں بلکہ تقریبا ًسرحدی حدود کی نمائندگی کرتی ہیں، جس پر شاید پوری طرح سے اتفاق نہ ہو۔''

کشمیر: کیا ایل او سی پر بسے گاؤں کے حالات بدل جائیں گے؟

ان کا کہنا تھا کہ کچھ بھی ہو بھارت نے اس حوالے سے اپنے موقف کو بار بار اجاگر کیا ہے اور کسی کو بھی اس کی سرحدوں سے متعلق کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔

تنازعہ کیا ہے؟

ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ پر کورونا وائرس سے متعلق ڈیش بورڈ پر بھی بھارت کا جونقشہ پیش کیا گیا ہے اس میں بھی متنازعہ خطے جموں و کشمیر اور لداخ کو بھارتی نقشے سے بالکل مختلف رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس اکسائی چن سمیت خطے کے دیگر متنازعہ علاقوں کو چین کے نقشے میں دکھا یا گیا ہے۔

 بھارت کو اسی پر سخت اعتراض ہے اور اسی لیے اس نے حالیہ مہینوں میں تین بار اس معاملے کو ڈبلیو ایچ او کے ساتھ اٹھایا۔ گزشتہ ماہ کے پہلے ہفتے میں بھارت نے اس معاملے پر ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس اڈہانوم گیبیریئس کے نام سخت مکتوب بھی بھیجا تھا اور تب سے جینیوا میں بھارتی حکام اس نقشے کو ہٹا کر دوسرا نقشہ لگانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

بدھ اور مسلم تہذيبوں سے آرستہ لداخ

بھارت کا موقف ہے کہ عالمی ادارے کو بھارتی حکومت کا جاری کردہ نقشہ اپنی سائٹ پر لگانا چاہیے۔ لیکن ادارے نے ایسا کرنے کے بجائے اپنی ویب سائٹ پر ایک وضاحتی بیان شائع کر کے یہ کہا ہے کہ اس کے اس نقشے کا مطلب کسی ملک کی سرحد کا تعین نہیں ہے۔

بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام خطہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس پر دونوں ملک اپنا اپنا دعوی کرتے ہیں۔ بھارت اسے اپنا اٹوٹ حصہ بتاتا ہے جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت اس علاقے پر غیر قانونی طور پر قابض ہے اور اس کے حل کے لیے استصواب رائے کی وکالت کرتا ہے۔

حالیہ مہینوں میں بھارت اس معاملے پر بیرونی ممالک یا پھر عالمی اداروں کے ساتھ کئی بار اعتراض کر چکا ہے۔ کچھ دنوں پہلے جب ٹویٹر نے ایک لائیو پروگرام کے دوران خطہ لداخ کو بھارت سے الگ دکھایا تھا تو اس پر بھی بھارت نے سخت اعتراض کیا تھا اور ٹویٹر حکام کو طلب کر لیا تھا۔

اس سے قبل جی 20 سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے پر بطور یادگار سعودی عرب نے اپنا بیس ریال کا نیا کرنسی نوٹ جاری کیا تھا اس میں بھی پورے خطہ کشمیر کو بھارت اور پاکستان سے الگ رکھا گیا تھا۔ بھارت نے اس پر بھی سخت اعتراض کیا تھا۔

’یہ علاقہ کبھی پاکستان کا حصہ تھا‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں