1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: پرتشدد مظاہروں کے درمیان ’پدماوت‘ ریلیز ہو گئی

جاوید اختر، نئی دہلی
25 جنوری 2018

متنازعہ فلم ’پدماوت‘ ملک کے مختلف حصوں میں آج سخت حفاظتی انتظامات میں پردہ سیمیں کی زینت بن تو گئی ہے لیکن اس کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ۔ دوسری طرف اس فلم نے سیاسی ماحول بھی گرم کردیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2rVEd
Film Padmavat  / Padmavati Bollywood Indien
تصویر: picture-alliance/Everett Collection/Paramount

’پدماوت‘ کی ریلیز کے ساتھ ہی جہاں ایک طرف فلم بینوں کی طویل قطاریں سنیما گھروں کے باہر  دکھائی دے رہی ہیں، وہیں اس فلم کی مخالفت کرنے والے بھی تشدد، توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی میں مصروف ہیں۔ اس صورت حال میں حفاظتی دستوں کو صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لئے سخت جدوجہدکرنی پڑ رہی ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی چار ریاستوں گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش اور گوا کی طرف سے اس فلم کی نمائش کو روکنے کے لئے دائر کردہ نظرثانی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے ملک بھر میں اس کی نمائش اور اس فلم کو دیکھنے والوں کے لئے حفاظتی انتظامات یقینی بنانے کا حکم دیا تھا۔ لیکن مذکورہ چاروں ریاستوں میں یہ فلم نہیں دکھائی جارہی ہے۔

جس کے بعد ایک سماجی کارکن تحسین پونا والا نے ان چاروں صوبائی حکومتوں کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ دائر کردیا ہے۔

 عدالت عظمی اس معاملے پر  آئندہ سوموار کو سماعت کرے گی۔
ہندو راجپوتوں کی نمائندگی کادعویٰ کرنے والی کرنی سینا کے کارکنوں نے آج بھی ملک کے مختلف حصوں میں پرتشدد مظاہرے کئے۔ انہوں نے توڑ پھوڑ کی، بسوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کیا، سڑکوں پر ٹائر جلائے، سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور فلمی شائقین کو روکنے کی کوشش کی۔

سب سے زیادہ پرتشدد واقعات اُن صوبوں میں پیش آئے ہیں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ دارالحکومت نئی دہلی اور اس کے اطراف کے شہروں میں بھی کرنی سینا کے کارکنوں نے ہنگامہ آرائی کی کوشش کی تاہم یہا ں سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں اورنیم فوجی دستے تعینات ہیں۔

خیال رہے کہ کرنی سینا کا دعویٰ ہے کہ اس فلم میں چتوڑ کی مہارانی پدماوتی کی شبیہ کو بگاڑ کرپیش کیا گیا ہے۔ لیکن فلم ساز سنجے لیلا بھنسالی نے چند روز قبل تمام بڑے اخبارات میں ایک اشتہار شائع کرکے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ لوگ اس فلم کو دیکھنے کے بعد پدماوتی پر فخر کریں گے۔ اس فلم کی ریلیز سے قبل سنجے لیلا بھنسالی کو طویل قانونی لڑائی بھی لڑنی پڑی جس کے تحت انہیں فلم کا نام ’پدماوتی‘ سے بدل کر ’پدماوت‘ کرنا پڑا اور اس کے کئی مناظر میں ترمیم اور تبدیلی بھی کرنی پڑی۔ لیکن کرنی سینا اس کے باوجود اس فلم کو نمائش کی اجازت دینے کے لئے کسی بھی صورت میں آمادہ نہیں ہے۔

کرنی سینا کے کارکنوں نے کل دہلی سے ملحق گڑگاؤں میں اسکول کے بچو ں کی ایک بس پر حملہ کردیا تھا اور بچوں کو بڑی مشکل سے اپنی جان بچانی پڑی تھی۔ اس حملے کی ہر طرف سے سخت مذمت ہو رہی ہے۔ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے آج ایک جلسہ سے خطاب کے دوران کہا، ’’ جب مسلمانوں کوہلاک اور دِلتوں کو جلایا جاتا ہے تب کچھ لوگ اس کے خلاف بولنے سے گریز کرتے ہیں لیکن اب تشدد کی آگ ہمارے گھروں تک پہنچ گئی ہے اور ہمارے بچے بھی تشدد کی زد میں آگئے ہیں ۔ آخر ہم کب تک خاموش رہیں گے۔‘‘ کیجریوال کا مزید کہنا تھا کہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ دہلی سے چند کلومیٹرکے فاصلے پر بچوں پر اس طرح پتھراؤ کیا گیا۔ وہ اس حملے کی ویڈیو دیکھنے کے بعد رات بھر سونہیں پائے۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا،’’اگر سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود وفاق اور صوبائی حکومتیں ایک فلم کو محفوظ طریقے سے ریلیز نہیں کرواپارہی ہیں تو پھر اس ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔‘‘

Indien Protest gegen Film Padmavat /Padmavati
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam



تجزیہ کار اس بات پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں کہ کرنی سینا کے ہاتھوں اتنے بڑے پیمانے پر تشدد اور سپریم کورٹ کے حکم کی مخالفت کے باوجود نریندر مودی کی وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی کارروائی تو دور کی بات، وزیر اعظم مودی کی طرف سے کوئی بیان تک نہیں آیا ہے۔ حکومت کی اس خاموشی پر ہر طرف سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ ان دنوں دہلی میں آسیان کا اجلاس چل رہا ہے جس میں دس ممالک کے سربراہان کے علاوہ ان ملکوں کے اعلی افسران اور میڈیاکے افراد بھی یہاں آئے ہوئے ہیں۔

اس دوران اس فلم نے سیاسی ماحول بھی گرم کردیا ہے۔ اپوزیشن کانگریس نے الزام لگایا کہ حکومت نے فلم ’پدماوت‘ ریلیز کرنے کے سلسلے میں خاطر خواہ تیاری نہیں کی جس کی وجہ سے ملک بھر میں خاص طور پر بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں قانون و انتظام کی صور ت حال خراب ہورہی ہے۔

بائیں بازو کی جماعت سی پی ایم کا کہنا ہے کہ یہ صرف قانون وا نتظام کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ بی جے پی کا نظریہ اور اس کی سیاست کی حقیقی تصویر ہے۔ اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو کے مطابق عوام کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومت اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ رکن پارلیمان اور کُل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی نے سوال کیا کہ ’ ’وزیر اعظم مودی کا چھپن انچ کا سینہ کہا ں چلا گیا۔‘‘